Saturday, 28 March 2015

سونامی، زلزلہ، آتش فشاں میں خدا کی ہدایتیں

(وصی احمد نعمانی ایڈووکیٹ(سپریم کورٹ
……..گزشتہ سے پیوستہ
قرآن سائنس اور کائنات کے عنوان کے تحت ’’چوتھی دنیا‘‘ میں سلسلہ وار مضامین شائع کیے جارہے ہیں۔ تقریباً 275 مضامین پر مشتمل یہ سلسلہ جاری ہے۔ زلزلہ، آتش فشاں، سونامی جیسے ذیلی مضامین کا نمبر تقریباً 50 مضامین شائع ہونے کے بعد آنے والا تھا۔ اب تک9 ذیلی مضامین ہی عوام کے سامنے آئے ہیں۔ مگر چونکہ ’’جاپان‘‘ کا حالیہ واقعہ جس کی شروعات 11 مارچ 2011 یعنی دوسرے ہفتہ سے شروع ہوا اور اب تک اس کا مابعد اثر باقی ہے، یہاں تک کہ مورخہ 29 مارچ کو بھی زلزلہ آیا ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ترتیب کو ذرا سا بدل کر ’’جاپان‘‘ کے حادثہ سے متعلق سائنسی انکشافات اور قرآنی آیات میں ایسے حالات کے تذکرہ پر مبنی باتیں قارئین کی یاد داشت کے حوالے کی جائیں، تاکہ ان کا ذہن جو حادثات کی وجہ سے چوکنا اور بیدار ہے، وہ سائنسی تحقیق کی روشنی میں قرآنی پیشین گوئی کو اچھی طرح سمجھ کر اس بات میں اعتماد پیدا کرسکے کہ کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات، حادثات خدا کے حکم کی تعمیل میں ہوتے ہیں اور اس طرح کے حادثات کے حوالے قرآن کریم میں بہت ہی روشن باب کی طرح مذکور ہیں اور انسان کو بار بار یاد دلاتے ہیں کہ وہ صرف ایک خدا کی عبادت کر کے اس کی وحدانیت کو مانیں اور صرف اس کی عنایتوں کے سہارے اپنی سانسیں لینے کا طریقہ اپنائیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ’’سائنس اور ٹکنالوجی‘‘ کے اس ترقی یافتہ دور میں صرف وہی بات سچ اور درست ثابت ہورہی ہے جو درحقیقت بنیادی طور پر سچ اور درست ہیں، ورنہ سائنسی تحقیقات تو فرضی اور من گھڑت باتوں، اصولوں، عقیدوں کو سرے سے خارج کرکے ثبوت و دلیل کی بنیاد پر بے وجود ثابت کرتی ہے۔ چونکہ خدا کا کلام سچ، درست، برحق ہے، کیوں کہ یہ خالق کائنات کا کلام ہے، اس لیے ہر وہ اصول اور نظریہ تحقیق یا ریسرچ جو حقیقت پسندی اور بے لوث نتائج پر مبنی ہیں، وہ سب اس بات کا اقرار اور اقبال کرتے ہیں کہ قرآن آسمانی کتاب ہے۔ جو لوح محفوظ میں درج ہے اور ساری کائنات کے سارے واقعات اس قرآن کریم میں فرمودہ ہدایات کی روشنی میں وقوع پذیر ہوتے ہیں اور تمام حادثات کلام اللہ کے حکم کے مطابق ہی صادر ہوتے ہیں۔
جاپان کا حالیہ واقعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ زمین کی بناوٹ، سمندر کی کارکردگی، آتش فشاں اور زلزلہ ٹھیک اسی طرح واقع ہوتا ہے جیسا کہ سائنس نے ہزاروں سال کی تحقیق کے بعد دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور سائنس کی یہ ’’تحقیق‘‘ نہایت مضبوطی سے ثابت کرتی ہے کہ ان واقعات کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے۔ سائنس جیسے جیسے تحقیقی میدان میں کامیابی حاصل کرتی جائے گی، قرآن کے بے پناہ رموز آشکار ہوتے جائیںگے اور دنیا اس آفاقی کتاب میں یقین کرکے، عمل کر کے خود کو خوش نصیب بناتی جائے گی۔ انکار کر کے اپنی بدبختی کو دعوت دے گی۔
سونامی، زلزلہ، آتش فشاں، آسمان سے برف کی بارش یہ سب ایک ساتھ اب کی بار جاپان میں واقع ہوا ہے۔ یہ غیر معمولی واقعہ ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اور ہمیشہ ہوتا ہی رہے گا۔ دنیا کے کن کن حصوں میں ہوتا رہے گا۔ ان سب کا اشارہ کلام پاک میں بھی ملتا ہے۔ حدیث نبویﷺ میں بھی موجود ہے، جس کی تفصیل ترتیب وار مضامین میں آئے گی۔
قرآن کی آیات اور سائنس کے نظریوں کے پیش نظر ان حادثات کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مندرجہ ذیل نکتوں کو اپنے ذہن میں رکھیں اور تدبر کریں تو یہ یقین ہوجائے گا کہ سائنس آج ہماری مددگار زندگی کے ہر شعبہ میں تو ہے ہی۔ وہ قرآن کریم کی بے شمار آیتوں کو ٹھیک سے سمجھنے میں بھی ہم سفر ہے اور یہ تو خدا کی بے شمار کرشمہ سازیوں کو کھلی اور بند آنکھوں سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ جاپان کے حالیہ واقعہ کو بنیاد مان کر ہم کافی قرآنی آیات کی تشریح کو سمجھنے میں مدد حاصل کرسکیںگے جو ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہوںگی اور اس اللہ رب العزت کی وحدانیت میں یقین مضبوط کریںگی۔ ہمیں اعتماد اور مکمل ایمان و یقین کے ساتھ اس رب کائنات کے حضور سجدہ ریز ہو کر اس کے سپرد خود کو کردینے کا موقع ملے گا۔ وہ نکتے یہ ہیں:
(1) قرآنی آیات میں جاپان کے حادثات کی طرح کے واقعات کا تذکرہ موجودہے۔
(2) زمین کی اندرونی اور بیرونی بناوٹ سے ہمیں قرآنی آیات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
(3) سائنسی تحقیق کے مطابق زمین کی اندرونی اور بیرونی کارکردگی۔
(4) سائنسی اور قرآنی دلائل کی مدد سے دونوں میں ’’یکسانیت‘‘ جو یہ ماننے کے لیے اعتماد پیدا کرتا ہے کہ سائنسی جدید ترین تحقیقات اور ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔
اس طرح جاپان کی موجودہ حالات کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے قرآنی آیات پر مبنی نظریوں کو جب عقل و شعور اور فکر و تدبر کی آنکھوں سے دیکھیںگے تو یہ صاف نظر آئے گا کہ ’’سائنس قرآن کے دربار میں‘‘ دست بستہ کہتی ہے کہ ہم تو صرف ان کرشموں کو آشکار کرنے کی لگاتار جد و جہد کرتے ہیں جو پہلے سے اس کائنات میں خدا کے حکم سے موجود ہیں۔ ہم تو ان کرشموں کو تحقیق کے ذریعہ پا کر اس ’’رب‘‘ کا حکم بجا لیتے ہیں، جو ہمارے ’’دامن‘‘ میں وہ بھر دیتا ہے اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ سائنس کا کمال ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خدا جن سائنس دانوں کو نوازتا ہے، انہیں سے وہ کائنات کے راز کو آشکار کرتا ہے۔ آپ تمام قارئین سے درخواست ہے کہ آپ دو اہم نکات کو تو اپنے ذہنوں میں ضرور محفوظ رکھیں، تاکہ شک و شبہ سے دور ریاضی کے طور پر ٹھیک ٹھیک حساب لگا کر اپنے ایمان و یقین کو مضبوط تر کرسکیں۔ یہ دونوں نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) قرآنی آیات
(2) اس معاملہ میں سائنسی تحقیق
جاپان کی طرح کے حادثات و واقعات سے متعلق قرآنی آیات کے تراجم پیش خدمت ہیں تاکہ آپ پہلے قرآنی فرمان کو ذہن میں رکھیں۔ اس کے بعد سائنسی انکشافات پیش کیے جائیں گے۔ ملاحظہ فرمائیں سورۂ الزلزال، آیت نمبر 1-8۔ ترجمہ: ’’جب  زمین شدت سے ہلا دی جائے گی اور زمین اپنا بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوگیاہے۔ اس دن وہ اپنے حالات بیان کرے گی، کیوں کہ تمہارے رب کا اس کو یہی حکم ہوگا۔ اس دن لوگ الگ الگ نکلیںگے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں۔ پس جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس شخص نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔‘‘
اس سورہ میں قیامت کے حالات کا تذکرہ ہے اور زلزلہ کی شدت سے زمین کے لرزہ براندام ہوجانے کا تذکرہ ہے۔ اتنی زبردست قوت سے زمین ہلا دی جائے گی کہ خود زمین کے اندر جو کچھ بھی موجود ہے، سب کچھ نکل کر باہر آئے گا، یعنی یہ کہ قیامت کے وقت زبردست زلزلہ پیدا ہوگا، اس میں شدت اتنی زیادہ ہوگی کہ زمین کے اندر ابال پیدا ہوجائے گا، جس سے اس کے پیٹ یا کوکھ میں موجود کوئلہ، پٹرول، پگھلی چٹانیں، تمام معدنیات وغیرہ سب کے سب باہر ہوجائیںگی۔
اسی طرح سورہ تکویر، آیت نمبر 1-14 میں قیامت کے وقت کے حالات کا تذکرہ یوں کیا گیا ہیـ۔
ترجمہ:’’جب سورج لپیٹ (اندھیرا کردیا جائے گا) دیا جائے گا اور جب ستارے بے نور ہوجائیںگے ۔اور جب پہاڑ چلا دئے جائیںگے۔ اور جب دس مہینہ کی اونٹنیاں بھاگی بھاگی پھریںگی۔ اور جب وحشی جانور (گھبرا کر) اکٹھا ہوجائیںگے۔ اور جب سمندر بھڑکا(آگ لگادی جائے گی) دئے جائیںگے۔ اور جب ایک ایک قسم کے لوگ اکٹھا کیے جائیںگے۔ اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔ اور جب اعمال نامے کھولے جائیںگے۔ اور جب آسمان کھل جائے گا۔ اور دوزخ بھڑکائی جائے گی۔ اور جب جنت قریب لائی جائے گی۔ ہر شخص جان لے گا۔ وہ کیا لے کر آیا ہے۔‘‘ان آیات مبارکہ کی بنیاد پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ زمین تتربتر ہوجائے گی۔ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی اس قدر گھبراہٹ ہوگی کہ تمام جانور یعنی شیر، ہرن، بکری جو ایک دوسرے سے خوف کھاتے ہیں اس دن سب کے سب یکجا ہوجائیںگے کسی کو کسی کی فکر نہیں ہوگی۔ سورج کی روشنی ختم ہوجائے گی۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے گا۔‘‘
سورہ القیامہ، آیت نمبر 5-12 میں اس طرح ذکر ہے۔
ترجمہ:’’وہ (انسان) پوچھتا ہے(ڈھٹائی سے) کہ قیامت کا دن کب آئے گا۔ پس جب آنکھیں خیرہ(پتھرا) ہوجائیںگی۔ اور چاند بے نور ہوجائے گا۔ اور سورج اور چاند اکٹھا کردئے جائیںگے۔ اس دن انسان کہے گا کہاں بھاگوں۔ ہرگز نہیں۔ کہیں پناہ نہیں۔ اس دن (صرف) تیرے رب کے پاس ہی ٹھکانا ہے…۔ جاپان جیسی حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے، زمین سے نکلنے والی گھڑگھڑاتی ہوئی اور دہشت پھیلاتی ہوئی آواز کے بارے میں اللہ نے سورہ القارعہ، آیت نمبر1-11 میں انسان کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ ترجمہ:’’گھڑگھڑانے والی، کیا ہے گھڑکھڑانے والی۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ گھڑگھڑانے والی جس دن لوگ، پتنگوں کی طرح بکھرے ہوئے ہوںگے۔ اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہوجائیںگے۔ پھر جس شخص کا پلہ بھاری ہوگا، وہ دل پسند آرام میں ہوگا۔ اور جس شخص کا پلہ ہلکا ہوگا تو اس کا ٹھکانہ گڑھا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ وہ کیا ہے، بھڑکی ہوئی آگ۔‘‘
اللہ نے سورہ القارعہ میں جس گھڑگھڑاہٹ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کے بارے میں انسان تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ اس آواز میں اس قدر شدت اور لرزش یا کپکپاہٹ ہوگی کہ اس سے پہاڑ ذرہ ذرہ بن کر فضا میں اڑنے لگے گا۔ اس گھڑگھڑاہٹ ’’کمپن‘‘ کی شدت کو جب پہاڑ برداشت نہیں کرسکے گا تو انسان یا دیگر جاندار کی کیا حالت ہوگی اس کا اندازہ بھی انسان ٹھیک سے نہیں لگا سکتا ہے، صرف خدا کو معلوم ہے کہ ’’صور‘‘ کی آواز سے کائنات بکھر جائے گی۔
کائنات کا خالق اللہ سورۂ ملک ، آیت نمبر 15-18 میں انسان کو آگاہ کرتا ہے۔ ترجمہ:’’وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے پست کردیا تو تم اس کے رستوں میں چلو اور اس کے رزق میں سے کھاؤ۔ اور اسی کی طرفہے اٹھنا(جانا)۔ کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو، جو آسمان میں ہے کہ وہ تم کو زمین میں دھنسادے۔ پھر وہ لرزنے لگے۔ کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے۔ بے خوف ہوگئے ہو کہ وہ تم پر پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دے۔ پھر تم جان لو کیسا ہے میرا ڈرانا۔ اور انہوں نے جھٹلایا۔ جوان سے پہلے تھے۔ تو کیسا ہوا میرا انکار۔‘‘
حالیہ جاپانی حادثات میں انسان، زمین کے اندر زندہ دفن بھی ہوگیا۔ زمین پوری شدت کے ساتھ لرزی بھی۔ آسمان سے برفیلا پتھراؤ بھی ہوا۔ اور آتش فشاں نے پھٹ کر آسمان سے گیسوں کی بارش بھی کی۔ رہی سہی کمی ’’ریڈی ایٹر‘‘ کی کرنوں نے پوری کردی۔ اس تباہی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ جاپان پر اپنی کرم فرمائی کرے، وہ بھی خدا کے بندے ہیں۔ ان کی کمیوں کو معاف کردے۔ اور قرآنی آیات کو سمجھنے، عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

سونامی، زلزلہ، آتش فشاں میں خدا کی ہدایتیں

وصی احمد نعمانی
……..گزشتہ سے پیوستہ
سورہ ملک کی آیت نمبر 16-17 کی تفسیر اور ترجمہ کرتے ہوئے شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن اور شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے آسمان سے پتھروں کی بارش اور زمین پھٹنے کی وجہ سے زلزلہ کی تشریح کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے، وہ جاپان کی موجودہ صورت حال کی طرف نہایت لطیف سا اشارہ ہے۔ یہ کچھ اس طرح ہے۔ ’’یعنی زمین کو تمہارے سامنے کیسا پست و ذلیل و نرم کردیا اور مسخر کردیا ہے کہ جو چاہو اس میں تصرف کرو تو چاہیے کہ اس پر اور اس کے پہاڑوں پر چلو پھرو اور روزی کماؤ، مگر اتنا یاد رکھو کہ جس نے روزی دی ہے، اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ خدا نے پہلے اپنے انعامات کو یاد دلایا ہے۔ پھر شان قہر و انتقام یاد دلا کر ان کا ڈرانا اور ہوشیار کرنا مقصود ہے۔ یعنی زمین بے شک تمہارے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ مگر یاد رہے اس پر حکومت اسی آسمان والے کی ہے وہ اگر چاہے تو تم کو زمین میں دھنسا دے۔ اس وقت زمین بھونچال سے لرزنے لگے اور تم اس کے اندر اترتے چلے جاؤ، لہٰذا آدمی کو جائز نہیں کہ اس مالک مختار سے نڈر ہو کر شرارتیں شروع کردے۔ اور اس کے ڈھیل دینے پر مغرور ہوجائے۔ یعنی بیشک زمین پر چلو پھرو اور روزی کماؤ۔ لیکن خدا کو نہ بھولو ورنہ وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر ایک سخت آندھی بھیج دے یا پتھروں کا مینھ برسادے پھر تم کیا کروگے ساری دوڑ دھوپ یونہی رکھی رہ جائے گی یعنی جس عذاب سے ڈرایا گیا ہے، وہ کیسا تباہ کن اور ہولناک ہے۔ یعنی قوم عاد، ثمود، فرعون، لوط وغیرہ کے ساتھ جو معاملہ ہوچکا ہے، اس سے عبرت حاصل کرو۔ دیکھ لو! ان کی حرکات پر انکار کی وجہ سے کیسے عذاب کی صورت میں کیسی کیسی مصیبتیں ظاہر ہوئیں۔
حضرت مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں کچھ اس طرح تشریح کی ہے۔ ’’مراد یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اس زمین پر تمہاری بقا اور تمہای سلامتی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے۔ ورنہ کسی وقت بھی اس کے ایک اشارے پر ایک زلزلہ ایسا آسکتا ہے کہ زمین تمہارے لیے آغوش مادر کے بجائے قبر کا گڑھا بن جائے، یا ہوا کا ایسا طوفان آسکتا ہے جو تمہاری بستیوں کو غارت کر کے رکھ دے۔‘‘
جاپان میں وقوع پذیر حالیہ سونامی، زلزلہ، آتش فشاں، آسمان سے اولہ باری کو ٹھیک سے سمجھنے، عبرت حاصل کرنے اور سائنسی تحقیقات کی روشنی میں مندرجہ بالا قرآنی آیات کو زیادہ اچھی طرح جاننے کے لیے، ان آیات کی تشریح کے ساتھ اب جغرافیائی، سائنسی حقائق کو ذہن میں رکھیں۔ پھر دونوں کے آپسی تال میل کو دیکھیں اور پھر تجزیہ کریں تو خدا کی ذات میں زیادہ یقین اور ایمان میں بے حد پختگی حاصل ہوگی۔ اب تک ہم نے قرآنی ہدایات کی روشنی میں، آسمان سے پتھراؤ کرنے والی آندھی، زمین کے پھٹنے کی وجہ سے زلزلہ اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تباہی کو جاننے کی کوشش کی ہے۔
اب سائنسی اعتبار سے ان معاملات کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ زمین کی جغرافیائی حالت اور اس کی بیرونی و اندرونی بناوٹ کو ٹھیک سے سمجھیں جو کچھ اس طرح ہے۔
زمین کی اندرونی اور بیرونی بناوٹ
ہماری زمین کے اندر نظر نہیں آنے والی ہزاروں ہزار دراڑیں ہیں جو ہر لمحہ زلزلہ آنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ہر ایک سکینڈ میں تقریباً 2 بار زلزلے آتے ہیں، یہ زلزلے زیادہ تر سمندروں اور جنگلوں میں آتے ہیں، اس لیے ہمیں پوری واقفیت نہیں ہوتی ہے، صرف ایک سو زلزلے ایسے ہوتے ہیں جس سے زمین اور مکان کے صرف ہلنے کا پتہ چلتا ہے اور سال بھر میں صرف پانچ زلزلے ایسے ہوتے ہیں جو غضناک تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ عمارتیں زمیں بوس ہوجاتی ہیں۔ سڑکیں تہس نہس ہوجاتی ہیں۔ زمین سے گندھگ، گیس، گرم پانی اور دیگر معدنی اشیاء کا اخراج ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتاہے اس کو سمجھنا بے حد ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ زمین کے اندر پوشیدہ ہزاروں دراڑوں کے علاوہ سیٹلائٹس یا تحقیقی اور تجزیاتی نتائج کی بنیاد پر جو دراڑیں صاف نظر آئی ہیں اور ان کے کردار کی پوری جانکاری دسیتاب ہوئی ہے، ا س کے مطابق تقریباً بیس دراڑیں ہیں اور جو نظر بھی آتی ہیں اور سائنسی آلات کی مدد سے ان سب کی تصدیق اور تحقیق ہوگئی ہے، وہ اس طرح ہیں، اسے سمجھنے کے لیے ہم اپنا سفر جاپان سے ہی شروع کرتے ہیں تاکہ ہمیں آسانی ہو۔
جاپان تین بڑی دراڑوں یا تین بڑی پلیٹوں کے جوڑ پر واقع ہے۔ اس لیے اس کی سرزمین پر تین طرف سے دباؤ پڑتا رہتا ہے اور جاپان ان تینوں دراڑوں یا پلیٹوں یا چٹانوں کے بیچ مین بالکل ’’سینڈوچ‘‘ کی طرف دبا ہوا ہے۔ جاپان کو پورب جانب سے Pacific Plate (بحرالکاہل پلیٹ)، پچھم جانب سے یوریشیا پلیٹ اور دکھن کی جانب سے فلپائن پلیٹ ہمیشہ دبا کر اپنا دباؤ بناتا رہتا ہے۔ یعنی جاپان کا محل وقوع نہایت نازک، اتھل پتھل حالات سے گھرا ہوا ہے۔ جاپان کے انتہائی شمال سے شروع ہو کر فلپائن کی پلیٹ کے پچھمی کنارے سے گزر کر انڈونیشیا، سنگاپور کے حلقہ میں پھیل کر ایک آتشی دائرہ بناتا ہے جسے Ring of fire کہتے ہیں۔ اس کے اثر میں آنے والے تمام خطے، سونامی، زلزلے، آتش فشاں پہاڑوں کے حلقوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ ان خطوں میں اس طرح کی تباہی ہمیشہ اپنا سر اٹھاتی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں زلزلہ آنے کی شدت اور تعداد مقابلتاً زیادہ ہے۔
ان پلیٹوں کے علاوہ جو دنیا کی دیگر پلیٹیں یا DRIFT ہیں۔ اس کے مطالعہ سے زمین کی جغرافیائی حالت اور سائنسی تحقیق کو سمجھنے میں بے حد مدد ملے گی اور تب قرآنی آیات کی مدد سے دنیا میں پیدا ہونے والے حادثات کا صحیح صحیح پتہ لگانا آسان ہوگا۔ اس لیے ان تمام باقی ماندہ پلیٹوں یا DRIFT کو ہم اچھی طرح ذہن نشین کرلیں، جو مندرجہ ذیل ہیں۔
فلپائن پلیٹ کے بالکل نیچے جنوب کی طرف AROLINE PLATE ہے۔ یہ سب پلیٹیں خط استوا کے شمال میں ہیں۔ زمین کو دو برابر گولائی والے حصوں میں تقسیم کرنے والے اس ’’خط استوا‘‘ کے دکھن میں ہے SOLOMAN PLATE اس کے نیچے ہے فجی پلیٹ(FIJI PLATE) یہ سب خط استوا سے دکھن میں ہے۔ اس کے علاوہ ہیں انڈوآسٹریلیا پلیٹ، ہندوستان کے اترپچھم میں ہے ایران پلیٹ۔ ایران کے دکھن اور ہندوستان کے پچھم میں ہے۔ عربین پلیٹ ہند مہاساگر کے پچھم اور عربین پلیٹ کے پچھم میں ہے۔ افریقین پلیٹ اس کے ٹھیک اوپر ہے۔ اناٹولین ANATOLIAN PLATE ۔ اسی طرح افریقن پلیٹ کے ٹھیک نیچے یعنی جنوب میں ہے۔ انٹارکٹک پلیٹ اس کے ٹھیک پچھم میں ہے۔ SCOTLA PLATE کے ٹھیک اوپر شمال کی جانب ہے۔ ساؤتھ امریکن پلیٹ جس کے ٹھیک مغرب میں ہے NAZCA PLATE اس کے اوپر ہے COCOS PLATE ۔ جنوبی امریکی پلیٹ کے ٹھیک سر پر ہے۔ کریبین CARABBIAN PLATE اس کے ٹھیک اوپر شمال میں ہے شمالی امریکی پلیٹ۔
نارتھ اور ساؤتھ امریکہ کے پچھم کوکس اور نازکا پلیٹ ہیں ان سب کے ٹھیک پچھم میںہے مشہور پیسفک پلیٹ Pacific Plate اسی کا پوربی حصہ گولائی کی وجہ سے جاپان سے سیدھے ملتا ہے اور یہ پلیٹ جاپان کو پورب سے پچھم کی طرف پوری شدت سے دباتا ہے۔ جب کہ یوریشیا پلیٹ ’’جاپان کو پچھم سے پورب کی طرف دھکیلتا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اسی جاپان کو فلپائن پلیٹ دکھن سے شمال کی جانب دھکا دیتا رہتا ہے۔ ان تین مخالف سمتوں کی طاقت کے درمیان جاپان کی سرزمین بلبلاتی اور چیختی چلاتی رہتی ہے اور لرزہ براندام ہو کر نہایت شدت سے کانپ اٹھتی ہے۔ اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا کہ 11 مارچ 2011 کو جاپان تھرتھرا گیا اور قیامت کا سا سماں پیدا ہوگیا۔ شمالی امریکہ کے بالکل شمال مغرب اور پیسفک Pacific Plate کے ٹھیک اتر پورب میں ہےJuan De Fuca Plate۔ اس طرح زمین کی اوپری سطح تقریباً 47 میل اندر تک بری طرح پھٹی ہوئی، بھیانک دراڑوں والی ہے۔ اس کے کافی نیچے 2000 کلومیٹر کی گولائی میں زمین کے مرکز کے چاروں طرف پگھلی ہوئی چٹانیں، پگھلے ہوئے پتھروں پر مشتمل آگ کی ندی بہتی رہتی ہے۔ اس آگ کا درجہ حرارت 5500 ڈگر سینٹی گریڈ ہے۔ زمین کی یہ دراڑیں اسے ہر لمحہ بے چین اور لرزہ براندام کرتی رہتی ہیں، کیوں کہ ان دراڑوں یا چٹانوں کی تین طرح کی حرکت ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ ان پلیٹوں کو ان کی حرکتوں کی بنیاد پر تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1 – Divergen Plates یا دور ہٹنے والی پلیٹیں۔ ایک دوسرے سے مخالف سمت میں الگ ہوتی ہیں۔
2- Convergnt Plates یا متصادم اور آپس میں ٹکرانے والی پلیٹیں جیسے دو مخالف طاقتیں ایک دوسرے سے سر کے بل ٹکرا رہی ہوں۔
3- Strike- Slip Fault یا ایک دوسرے پر پھسلنے والی پلیٹیں یہ پلیٹیں ایک دوسرے سے دور ہوتی ہیں تو ان دونوں کی دراڑ زیادہ کشادہ ہوجاتی ہیں اور درمیان سے پگھلے ہوئے لاوے اور دیگر معدنیات نہایت طاقت سے زمین کے اندر سے باہر آتے ہیں اور زمین تھرتھرانے لگتی ہے۔
اگر دراڑیں ایک دوسرے سے آمنے سامنے ٹکراتی ہیں تو بے پناہ دباؤ اور حرارت کا اخراج ہوتاہے زمین شدت سے کپکپانے لگتی ہے اور ساری چیزوں کو شدت کے تناسب سے ہلا ڈالتی ہے اور اگر چٹانیں ایک دوسرے پر پھسلتی ہیں تو اس صورت میں ایک دوسرے کو چکی کے پاٹوں کی طرح پیستی رگڑتی ہیں۔ نتیجہ ہوتا ہے کہ اس عمل سے پیدا شدہ دباؤ۔ انرجی کو باہر نکلنا ہوتا ہے۔ تینوں صورتوں میں زمین ہلتی ہے۔ آتش فشاں ابال کھاتا ہے۔ زمین کے اندر کی ’’گندھکی‘‘ گیس اور دیگر قسم کی باہر نکلتی ہیں اور نہایت سرعت کے ساتھ اونچائی کو پہنچ کر ٹھنڈی ہو کر پتھروں کی شکل میں برسنے لگتی ہیں۔ غالباً ایسے ہی عذاب کو خدا نے سورہ ملک کی آیت نمبر 16-17 میں ارشاد فرمایا ہے کہ’’کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے، تمہیں زمین میں دھنسادے اور یکایک زمین جھکولے کھانے لگے؟ کیا تم اس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تم پر پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دے، پھر تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ (خدا کی) میری تنبیہ کیسی ہے۔‘‘
زمین کی انہیں دراڑوں سے ہزاروں کلو میٹر گہرائی سے ’’لاوا‘‘ میگما، آتش فشاں پہاڑ کی شکل میں نکلتا ہے۔ اگرچہ یہ پلٹیں جو زمین کی سطح یا Crust بناتی ہیں وہ سال بھر میں صرف چند انچ ہی بڑھتی ہیں، لیکن زمین کروڑوں یا Million سالوں میں اپنے Crust یا سطح کے ساتھ ہزاروں میل کی مختلف دوریوں میں بٹ گئی ہے۔ اسی عمل کے نتیجہ میں نئے نئے براعظم، سمندر اور پہاڑوں کی تخلیق ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمالیہ پہاڑ کی تخلیق 10 سے 20 کروڑ سال قبل ہوئی، کیوں کہ ہندوستانی براعظم Gund Wanaland یعنی افریقہ کا حصہ تھا اور وہ ایشیا کے براعظم سے متصادم ہوا۔ اس طرح انڈوآسٹریلیا پلیٹ (ہندوستان اور آسٹریلیا مل کر ایک چٹان بناتے ہیں) کا کھسکنا شمال کی جانب جاری رہا جو Continent کرسٹ یا سطح کو ہٹاتا گیا اور ہمالیہ پہاڑ کی تخلیق کر کے اسے اوپر اٹھاتا گیا۔ یہ دنیا کا سب سے اونچا اور جوان پہاڑی سلسلہ ہے، یہ 80 کروڑ سال پہلے افریقہ کا حصہ تھا۔ اس کا سلسلہ چین سے لے کر ہندوستان، پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔ زمین کی اسی جغرافیائی خصوصیت کی وجہ سے ساؤتھ امریکہ کے بالکل انتہائی جنوب سے شروع ہو کر بحرالکاہل کے کنارے شمالی امریکہ کے جنوبی مغربی حصہ تک، کوہ آتش فشاں کا سلسلہ ہے جو زندہ ہے اور سرگرم ہے، جس سے جاپان کی طرح کی سونامی کا خطرہ ہمیشہ موجود ہے۔

سائنس کا صحیح استعمال خدا کے قریب کرتا ہے

وصی احمد نعمانی
……..گزشتہ سے پیوستہ
جب ہم سونامی، زلزلہ، آتش فشاں، آسمان سے برف کی شکل میں پتھروں کی بارش کو ذہن میں رکھ کر جاپان کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں اور قرآنی آیات کی روشنی میں ان سب کا تجزیہ کرتے ہیں تو بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے کہ دنیا چاہے جس قدر طاقتور ہونے کا دعویٰ کرے، مگر اللہ کی مرضی اور حکم کے سامنے سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بکھر جاتے ہیں، حکومت صرف خدا کی ہے۔ اس لیے قانون صرف اسی کا چلتا ہے۔ سائنس اور تمام علوم اسی کی نشانیاں ہیں۔
جاپان نے 1952 میں ہی اس بات کا اعلان کردیا تھا کہ اسے سونامی اور زلزلہ جیسی آفات کے سلسلہ میں پختہ انتظام کی صلاحیت پر ناز ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ سونامی کے سلسلہ میں بہت جلدی سے یعنی ٹھیک وقت پر اپنے شہریوں کو خبردار کرنے کے نظام پر بجا طور پر فخر ہے۔ یعنی جاپان اپنی سائنس و ٹکنالوجی کی مہارت کی وجہ سے قبل از وقت خطرے کا اعلان کر کے اپنے شہریوں کی زندگی اور املاک کو بچا سکتا ہے۔ چنانچہ کہا یہ جاتا تھا کہ اگر زلزلہ کی شدت رجسٹرڈ اسکیل پر 7 سے 8 ہو تو جاپان کی عمارتیں اپنی کپکپاہٹ اور تھرتھراہٹ کو جھیل سکتی ہیں، کیوں کہ اس نے اس پر عبور حاصل کرلیا ہے۔ کئی میٹر کی سونامی لہر تک کو جاپان برداشت کرسکتا ہے۔ جاپان میں 140 سال کی مدت میں آئے زلزلوں، آتش فشاں پہاڑوں سے آگ اگلنے اور سونامی کی تباہیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔ اس کے حساب سے 140 سال کی مدت میں رجسٹرڈ اسکیل پر 9 کی شدت یا 8.9 کی شدت کا زلزلہ نہیں آیا تھا، مگر اس بار گیارہ مارچ 2011 کو گزشتہ 140 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ اب کی بار تو 80 سے زیادہ قصبوں میں آگ لگ گئی۔ سڑکیں دھنس گئیں، کاریں، بسیں یہاں تک کہ ٹرینیں تنکوں کی طرح سونامی میں تیرنے لگ گئیں اور اللہ کی جانب سے حکومت جاپان کو یہ ہدایت جاری کردی گئی کہ کوئی چاہے جس قدر طاقت ور ہونے کا دعویٰ کرے، سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں اپنی ناخدائی کا اعلان کردے، مگر اللہ کی سلطنت میں صرف اس کی حکومت چلتی ہے، کیوں کہ زمین و آسمان اور سب کچھ خدا کا ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی سب اس کی قدرت میں ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جاپان کا مورخہ گیارہ مارچ 2011 کا زلزلہ اتنا زبردست تھا کہ اس کے زور دار جھٹکے نے زمین کا جغرافیہ بدل دیا اور جاپان اپنی جگہ سے 8 فٹ کھسک گیا۔ سروے کے مطابق زلزلہ، ٹیک ٹانک شفٹ علاقہ اور شمالی امریکہ کی پلیٹوں کے درمیان ’’داب‘‘ میں توازن بگڑنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ یہ بات ثابت ہے کہ شمالی امریکی پلیٹ کو بحرالکاہل کی پلیٹ ہر سال 3.3 انچ کی تیزی سے دھکیلتی ہے، کیوں کہ زلزلہ ایسا جھٹکا لاسکتا ہے، جو پلیٹ کو آگے کھسکا سکتا ہے۔ سابقہ مضمون میں یہ بات آچکی ہے کہ زمین تقریباً 20 جگہوں سے پھٹی ہوئی اور اس کی دراڑیں تقریباً 47 کلو میٹر اندر تک گہری ہیں۔ یہ دراڑیں زلزلہ، آتش فشاں سونامی کے ذرائع ہیں۔
یہ بات دنیا جانتی ہے کہ جاپان دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں دوسرے نمبر پر گنا جاتا ہے۔ مگر جغرافیائی اعتبار سے جاپان زلزلہ کی پٹی پر واقع ہے اور چاروں طرف سے سینڈوچ کی طرح ہمیشہ دبتا رہتا ہے، اس کے مغرب کی جانب سے یوریشیا کی پٹی، مشرق کی جانب سے بحرالکاہل کی پٹی اور جنوب کی جانب سے فلپائن کی پٹی دباتی رہتی ہے۔ اسی لیے یہاں شدت کے زلزلے آتے رہتے ہیں اور ایسا ہمیشہ بلکہ اس سے زیادہ تباہیاں ہوتی رہیںگی، خدا وہاں کے باشندوں پر اپنا کرم کرے کہ وہ بھی اسی کے بندے ہیں۔ اس بار تو گاؤں کے گاؤں بہہ گئے۔ قصبے کے قصبے روئے زمین سے مٹ گئے جیسے کبھی ان کا نام و نشان نہیں تھا۔ کبھی کوئی وجود نہیں تھا۔ جاپان کی اقتصادی، مادی اور سائنسی ترقی کچھ کام نہیں آسکی، یہاں تک کہ دیگر پچاس ممالک نے گھبرا کر سونامی الرٹ جاری کردیا۔ روس، تائیوان، فلپائن، انڈونیشیا، پایوا، نیوگویانہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فجی، گوئٹامالا، میکسیکو، پنامہ وغیرہ میں خوف و دہشت کی وجہ سے سونامی کے نام سے کپکپانے لگے۔ دنیا اللہ کی عظمت جاہ و جلال کو یاد کرنے میں مشغول ہوگئی۔ صاحب ایمان نے دنیا کی سلامتی کی دعائیں مانگیں۔ جاپان کو تباہیوں سے بچانے کی اللہ سے درخواست کی۔ اس طرح ستمبر 1923 میں 7.9 کی شدت والے زلزلہ نے ٹوکیو میں تقریباً 40 ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ پھر 2004 میں بحرہند میں سونامی آنے سے 10 بلین (کھرب) کا نقصان ہوا تھا اور 1995 میں 100 بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ یہ ایسا خطرناک نام ہوگیا کہ سننے کے بعد ہی بدن میں جھرجھری پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی لہریں سمندر کے ساحل پر دکھائی دیتی ہیں۔ سمندر میں آتش فشاں پھٹنے سے بھی بھیانک سونامی پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی طرح زمین کھسکنے یا پلیٹوں کے ٹکرانے سے یا پھر پلیٹوں کے ایک دوسرے سے دور ہونے سے سونامی پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح کی لہریں 1800 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سمندر کے اندر دوڑتی ہیں۔ اس کی چوڑائی 750 کلومیٹر تک ہوسکتی ہے۔ لگاتار طاقتور لہریں ایک دوسرے پر چڑھا کرتی ہیں، تو اس کی رفتار میں شدت پیدا ہوتی جاتی ہے، جس سے اکثر پانی کی لہریں 30-40 میٹر تک اونچی اٹھ کر ایک دیوار سی بناتی ہیں۔ سونامی آنے کے قبل سمندر کے کناروں کا پانی اندر کی طرف کھنچ کر چلا جاتا ہے اور پھر یہ یکجا ہو کر پلٹ کر تباہی مچا دیتا ہے۔ 26 دسمبر 2004 میں جنوبی ہند مہاساگر میں ایسا ہی ہوا تھا، جب ہزاروں کلو میٹر دور سماترا کے نزدیک سمندر کے اندر زلزلہ پیدا ہوا تھا۔ سمندر کی گہرائی میں زیر زمین ہلچل کی وجہ سے یا پلیٹوں کے کھسکنے، چھچھلنے کی وجہ سے پانی کی سطح کے نیچے یا اوپر بائیں یا دائیں حرکت کی وجہ سے سونامی کی لہریں پیدا ہوتی ہیں، پانی کی سطح پر جب ہوا کے تھپیڑے ٹکراتے ہیں تو بہت تھوڑی توانائی کی چھوٹی چھوٹی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ ان لہروں کا اثر سمندر کی زیادہ گہرائی میں تو نہیں کے برابر ہوتا ہے۔ مگر جب بڑی بڑی چٹانیں ایک دوسرے کو دباتی ہیں یا کھسکتی اور پھسلتی ہیں تو سمندر کے اندر 30-40 میٹر کی لہریں پیدا ہوجاتی ہیں، لیکن سمندر میں رواں دواں پانی کے جہازوں کو ان کا پتہ تک نہیں چلتا ہے۔ جب تک کہ یہ رفتہ رفتہ سمندری ساحلوں کے قریب نہ پہنچ جائیں۔ ان زلزلوں کی وجہ سے 27 فروری 2010 کو ’’چلی‘‘ میں 8.8 کی شدت کا زلزلہ آیا۔ سیکڑوں عمارتیں زمیں بوس ہوگئیں، اس سے قبل 12 جنوری 2010 کو ’’ہیتی‘‘ میں 7 کی شدت کے زلزلہ نے تقریباً دو لاکھ انسانوں کو موت کے آغوش میں سلا دیا۔ ایک کروڑ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے۔ آٹھ اکتوبر 2005 کو شمالی پاکستان کے شمالی علاقہ میں 7.8 کی شدت کے زلزلہ نے ایک لاکھ 9 ہزار لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ 26 دسمبر 2004 کو انڈونیشیا کے جزیرہ سماترا کے شمالی علاقہ میں 8.9 کی شدت کے زلزلہ کے نتیجہ میں پیدا شدہ سونامی نے 2 لاکھ پچیس ہزار لوگوں کو ہلاک کرڈالا۔ اس سے تھائی لینڈ، سری لنکا اور ہندوستان بھی بری طرح متاثر ہوا تھا۔ 26 ستمبر 2003 میں ایرانی شہر ’’بام‘‘ میں 6.7 کی شدت کے زلزلے نے 31 ہزار 884 آدمیوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ اسی طرح گجرات (ہندوستان) میں 26 جنوری 2001 میں 7.9 کی شدت کے زلزلہ نے 20 ہزار لوگوں کو ہلاک اور ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو زخمی اور بے گھر کردیا۔
جاپان میں زلزلہ آنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ مورخہ 28 مارچ 2011 کو صبح 7:24 بجے 6.5 کی شدت کے زلزلے نے پورے علاقہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ دوسری طرف ری ایکٹر ایک میں4000 ڈگری تک ٹمپریچر پہنچ گیا۔ سمندر میں تابکاری کے اثر نے لوگوں کو خوف زدہ کردیا ہے۔ پھر مورخہ 25 مارچ 2011 کو میانمار کے شمال مشرقی خطے میں تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب 6.8 کی شدت کا زلزلہ آیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ فوکو شیما ڈانچی کے قریب سمندر کے پانی میں ’’ریڈیو ایکٹیو آئیو ڈین‘‘ کی سطح زیادہ بلند پائی گئی۔ یعنی سمندری پانی میں قانونی حد سے ’’تین ہزار تین سو پچیس گنا زیادہ ریڈیو ایکٹیو آئیو ڈین پائی گئی ہے۔ جس کے نتیجہ میں بہت سے ملکوں نے اس ’’نیوکلیائی‘‘ تباہی سے سبق لے کر اس کے فروغ کے بارے میں دوبارہ سوچنا شروع کردیا ہے۔ یہ نیوکلیائی تباہی سابق سوویت یونین کے ’’چرنوبل‘‘ کے جوہری دھماکہ کی یاد دلاتی ہے۔ یہ ’’یوکرین‘‘ میں واقع ہے، جو 1986 میں پھٹ گیا تھا۔ اس کے بعد سب سے بڑا جوہری دھماکہ ’’فوکوشیما‘‘ میں ہوا ہے۔  جاپان کے ان واقعات نے ایسی تباہی مچائی کہ مہلوک کی لاش تک کی شناخت نہیں ہو پارہی ہے۔ ان کے سڑے ہوئے اور مخدوش ڈھانچوں کے قد، کاٹھی سے یا ان کے لباس اور دستاویزات جو ان لاشوں سے برآمد ہوئے ہیں کے ذریعہ صرف 1700 کی شناخت ہوسکی ہے، جب کہ مرنے والوں کی اور نامعلوم لاشوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اگر ہم ان واقعات کو صرف حادثات کے طور پر دیکھ کر خاموش ہوجائیںگے تو یہ ہماری بدنصیبی ہوگی اور اگر قرآنی آیات کی روشنی میں ان پر غور و خوض کریںگے تو یہی حادثات ہماری رہنمائی کا ذریعہ بنیںگے اور خدائے ذوالجلال کے اشاریہ کو سمجھ کر خود کو اس کے حوالے کردینے کی خوش نصیبی حاصل ہوگی۔ دنیا نے جاپان کے اس حادثہ سے عبرت حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی ہے، مگر نتیجہ درست نہیں نکال پا رہی ہے، کیوں کہ صرف سائنسی اور ٹکنالوجی کے ذریعہ حاصل کردہ نتائج کی بنیاد پر تجربہ کر رہی ہے۔ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ بس قیامت آنے ہی والی ہے۔ کچھ لوگوں نے تو تاریخ اور سال کا تعین بھی کردیا ہے، جو سراسر غلط ہے۔ یہاں بھی ہم کو صرف قرآن سے رہنمائی حاصل کرکے ان واقعات کو نصیحت اور ہدایت کا ذریعہ بنانا ہوگا، کیوں کہ قیامت کا علم صرف خدا کو ہے اور اس کا تذکرہ اللہ کی کتاب میں موجود ہے، جو اس طرح ہے۔
سورہ الاحزاب، آیت نمبر 63 ’’لوگ تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہو کہ اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے۔ اور تم کو کیا خبر، شاید قیامت قریب آلگی ہو۔ بے شک اللہ نے منکروں کو رحمت سے دور کردیا ہے۔‘‘
اسی طرح سورہ لقمان ، آیت نمبر 34 میں اللہ نے قیامت آنے کے بارے میں ارشاد فرمایا:’’بے شک اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ رحم میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا ہے کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ جاننے والا باخبر ہے۔‘‘
یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ دنیا میں جتنے حادثات رونما ہورہے ہیں، وہ سب کے سب دنیا کے ختم ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بحرالکاہل، بحر اوقیانوس، بحرہند جیسے سمندروں میں سائیکلون، زلزلہ ، آتش فشاں کی شکل میں پیدا ہونے والے حادثات، یہ سب نشانیاں ہیں خدا کی عظیم الشان طاقت کی، دنیا سائنس اور ٹکنالوجی میں جس قدر بھی ترقی کرلے، مگر جو اپنی خود حفاظت نہیں کرسکتی ہے اور جاپان، انڈونیشیا وغیرہ کے جیسے حالات سے خود کو بچا نہیں سکتی ہے۔ وہ قیامت کی تاریخ اور سال کا تعین کیسے کرسکتی ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ:
خدا کے رسول نے قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے چند کی طرف اشارہ فرمادیا ہے۔ ان کے وقوع پذیر ہونے کے قبل قیامت کے آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ قیامت کی بڑی علامتوں میں سے مندرجہ ذیل میں تین بڑے ’’خسف‘‘ زمین کا دھنسنا ایک مشرق میں ایک مغرب میں ایک جزائر العرب میں۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دابۃ الارض کا خروج، دھویں کا نکلنا، خروج دجال، عیسیؑ کی آمد، یاجوج ماجوج کا خروج، حضرت مہدی کا ظہور ، سب سے اخیر میں ایک زبردست آگ جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی وغیرہ، جب تک یہ واقعات پیش نہیں آتے ہیں، قیامت نہیں آئے گی۔ مگر زلزلہ جیسے واقعات کا اس کثرت سے اور اس تباہی کے ساتھ ہونا بھی قیامت کی نشانی ہے اور انسان کو بتایا جارہا ہے کہ سوزالزال کے مطابق جو زلزلہ آنا ہے اس کی علامتیں یہ چھوٹے چھوٹے زلزلے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآنی آیات کی روشنی میں سائنسی انکشافات کو سمجھنے ا ور پڑھنے کی کوشش کریںگے تو ہمیں یقین ہوگا کہ سب کچھ اللہ کی کتاب میں مذکور اصولوں کے زیر اثر ہورہے ہیں۔ جب انسان کی نافرمانی حد سے گزر جاتی ہے تو خدا تنبیہ کے لیے جاپان جیسے واقعات کے ذریعہ ضرور اپنی ہدایات یاد دلاتا ہے۔ خدا جانے کیوں جاپان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سرزمین نے قرآنی تعلیمات کے فروغ پر پابندی لگادی ہے۔ اسلامی شعائر کی مخالفت کی ہے۔ اللہ کرے جاپان کی دھرتی کو یہ احساس ہو کہ اس پر حکومت صرف اللہ کی چلے گی سائنس اور ٹکنالوجی کی نہیں۔ یہ تو خدا کی کائنات کو جاننے سمجھنے میں مددگار ہے اور بس سائنسی علوم خدا کی نشانیوں کے ترجمان ہیں۔ ان کا صحیح استعمال انسان کو خدا کی نگاہ میں بلند کرتا ہے۔ غلط استعمال اور بے بنیاد دعویٰ اللہ کی عنایتوں سے محروم کرتا ہے۔
(جاری)

بے شمار مشرق و مغرب ہیں قرآن و سائنس سے ثابت

وصی احمد نعمانی 
گزشتہ سے پیوستہ………
سائنس نے اپنی تحقیق و ثبوت و دلیل کی بنیاد پر ثابت کیا ہے کہ ایک پورب ہے، دو پورب ہیں اور بے شمار پورب ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری ہے۔ ایک مشرق ہے، دو مشرقیں اور بے شمار مشرق ہیں۔ اسی طرح ایک مغرب ہے، دو مغرب ہیں، بے شمار مغرب ہیں۔ سائنس کی مذکورہ بالا تین اور دلیل جو نیچے پیش کی جائیںگی بالکل درست ہیں۔ قرآن کریم کا دعویٰ تو بہرحال سچ ہے کیوں کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اور اس کا ہر حرف سچ ہے۔ تمام دعوے درست ہیں۔
سائنس نے اپنے دعویٰ میں کہ ایک پورب ہے، دو پورب ہیں اور بے شمار پورب ہیں اس کے بارے میں مندرجہ ذیل ثبوت پیش کیا ہے۔
1- یک پورب ہے: سائنس کا کہنا ہے کہ پورب اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے سورج نکلتا ہے یا سورج کی پہلی کرن جہاں سے نکلتی ہے، وہی پورب ہے۔ اس اعتبار سے ہم سب دیکھتے ہیں کہ سورج روزانہ پورب سے طلوع ہوتا ہے۔ اس لیے ایک پورب ہے۔ اسی طرح سائنسی اعتبار سے جس دن جس نکتہ پر سورج ڈوبتا ہے وہ نکتہ پچھم ہے۔ اس لیے انسانی مشاہدہ کے روپ میں ایک پچھم ہوا اور ایک پورب ہوا۔
2- دو پورب ہیں: اس کے لیے ہمیں پہلے زمین کی ساخت یا اس کی جغرافیائی کیفیت کو سمجھنا ہوگا۔ زمین جو سنترہ کی طرح اوپر اور نیچے سے چپٹی ہوتی ہے، وہ ایک خط کے ذریعہ دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔ یہ خط زمین کے ٹھیک درمیان سے گزرتا ہے، اس خط کو خط مستقیم کہتے ہیں اور یہ زمین کے جغرافیائی صفر کے مقام سے زمین کے چاروں طرف گھوم کر اسے دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اسی طرح زمین شمالی کرہ اور جنوبی کرہ میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ اس خط کے ٹھیک شمال میں خط سرطاں اور جنوب میں خط جدی ہے۔ انہیں Tropic of Cancer اور Tropic of Capricorn ترتیب وار کہتے ہیں ۔ یعنی خط استوا یا Equator کے شمال اور جنوب میں ترتیب سے ساڑھے تئیس ساڑھے تئیس  ڈگری کی دوری پر قائم ہیں، کیوں کہ خط استوا صفر ڈگری پر قائم ہے۔ اس کے علاوہ جو بے حد اہم ہے، وہ یہ ہے کہ زمین بذات خود سورج کے چاروں طرف اپنے مرکز پرساڑھے تئیس ڈگری جھک کر گھومتی رہتی ہے اور 24 گھنٹوں میں ایک چکر پورا کرلیتی ہے۔ اسے زمین کی محوری یا مرکزی گردش کہتے ہیں۔ اس گردش کی وجہ سے ہی دن اور رات کی تخلیق ہوتی ہے۔ مزید برآں زمین کی ایک نہایت اہم اور ضروری گردش اس کے اپنے مدار کی گردش ہے۔ زمین اپنے پورے مدار پر گردش مکمل کرنے میں ایک سال یا 365.25 دن لیتی ہے۔ زمین کی اسی سالانہ گردش کی وجہ سے تمام موسموں کی تخلیق ہوتی ہے۔ یعنی جاڑا، گرمی، برسات، موسم بہار وغیرہ کی پیدائش ہوتی ہے۔ زمین جب اپنے مدار پر گھومتی رہتی ہے تو ساڑھے تئیس ڈگری شمال کی جانب ہمیشہ جھک کر گھومنے کی وجہ سے سورج کی روشنی ان پر بدل بدل کر پڑتی ہے۔ کبھی سیدھی کرنیں اور کبھی ترچھی کرنیں مگر سورج کی شعاعوں یا کرنوں کا سفر انہیں دو اہم خطوط یعنی خط سرطاں اور خط جدی کے درمیان جاری رہتا ہے۔ پوری دنیا میں موسم کا بدلاؤ انہیں دونوں خطوط کے درمیان سیدھی اور ترچھی پڑنے والی کرنوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جہاں اور جب سورج کی کرنیں بالکل سیدھی پڑتی ہیں وہاں بے حد گرمی پڑتی ہے۔ جہاں ترچھی پڑتی ہیں وہاں گرمی کی شدت میں قدرے کمی ہوتی ہے۔ سورج کی کرنوں کے اسی اہم سفر کی وجہ سے قطب شمالی اور قطب جنوبی میں یعنی زمین کے انتہائی شمال اور انتہائی جنوب میں چھ مہینے کے دن اور چھ ماہ کی راتیں ہوتی ہیں۔ سورج کی کرنوں کے ایسے ہی سفر کی وجہ سے اس کی زندگی میں ایک سال میں دو اہم دن آتے ہیں۔ ایک ہے 21 جون، دوسرا ہے 21 دسمبر۔ 21 جون کو سورج کی کرنیں انتہائی شمال میں ہوتی ہیں اور اسی دن نئے سرے سے طلوع ہو کر وہیں سے قطب جنوبی کی طرف اپنا سفر شروع کرتی ہیں اور 21 دسمبر کا وقت آجاتا ہے۔ اس دن یعنی 21 دسمبر کو ہی انتہائے جنوب میں پہنچ کر سورج کی کرنیں، اسی دن قطب شمالی کی طرف پلٹنے لگ جاتی ہیں۔ یعنی سورج کی زندگی میں ہر سال دو دن ایسے ہوتے ہیں جہاںسے سورج اپنی نئی زندگی شروع کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں سورج 21 جون کو قطب شمالی کے خاص نکتہ سے طلوع ہو کر اور 21 دسمبر کو قطب جنوبی کے خاص نکتہ سے طلوع ہو کر اپنا نیا سفر جاری کرتا ہے۔ یہ دونوں دن سال میں سورج کی پیدائش کا نیا دن ہے یا یہ دونوں نکتے دو نئے پورب ہیں اسی لیے سائنسی اعتبار سے یہ دو پورب ہوئے۔
3 – بے شمار پورب: سورج جب 21 جون کو اپنا سفر شمال سے جنوب کی طرف آنے کے لیے شروع کرتا ہے اور ٹھیک 6 ماہ کے بعد چلتے چلتے (سورج کی کرنیں) 21 دسمبر کو قطب جنوبی میں پہنچ کر اسی دن قطب جنوبی کی طرف سے سفر جاری رکھتے ہوئے قطب شمالی میں پھر واپس آتا ہے تو اس مدت میں پورے ایک سال کا وقت مکمل ہوجاتا ہے۔ اس ایک سال میں سورج ہر روز ایک نئے زاویہ یا نئی جگہ سے نکلتا ہے، لہٰذا جس دن سورج جس زاویہ یا جس جگہ سے نکلتا ہے، اس دن سورج کے لیے وہی نیا پورب ہے۔ اس سال بھر کے درمیان سفر کر کے سورج زمین پر 47 ڈگری کا حصہ طے کر لیتا ہے اور اس طرح سورج بے شمار  پوربوں کی جگہ سے روزانہ طلوع ہوتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ سورج جہاں سے طلوع ہوتا ہے، وہی جگہ پورب ہے۔ اس سے سائنس نے یہ ثابت کیا کہ بے شمار پورب ہیں۔ اس کا صحیح منظر دلی کے جنتر منتر پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہاں کی دیواروں میں بے شمار سوراخ ہیں۔ ان سوراخوں سے ہر روز سورج نکلتا ہوا لگتا ہے، کیوں کہ ہر روز الگ الگ سوراخوں کے سامنے سے سورج کے طلوع ہونے کا منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ جو بے شمار سوراخوں سے طلوع ہو کر بے شمار مشرقوں کا ثبوت دیتا ہے۔
یعنی ایک پورب ہے، دو پورب ہیں، بے شمار پورب ہیں۔ اسے سائنس نے ثبوت اور دلیل کے ساتھ ثابت کردیا۔ بے شمار پورب کے ثبوت میں اور بھی دلائل ہیں۔ مثلاً ہمارے نظام شمسی میں سورج کے گرد گھومنے والے نو سیارے ہیں، جو سورج کی روشنی سے روشن ہوتے ہیں۔ یعنی ان پر بھی سورج طلوع ہوتا ہے یا غروب ہوتا ہے، وہ سیارے ہیں۔ 1- عطار د (Mercury) 2- زہرہ(Venus) 3 – زمین (Earth) 4 – مریخ(Mars) 5- مشتری(Jupiter) 6- زحل(Saturn) 7- یورینس8- نیپچون9-  پلوٹو۔ ان تمام سیاروں پر سورج اپنی روشنی بکھیرتا ہے اور اس طرح دن اور رات کی تخلیق بھی ان سیاروں پر سورج کی گردش اور اس کی کرنوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یعنی یہ کہ ان نو سیاروں پر بھی پورب اور پچھم موجود ہیں۔ اس طرح بے شمار پورب یا مشرق و مغرب ہیں۔ یہ بات مکمل طور پر سائنسی تحقیق اور ریسرچ کی بنیاد پر ثابت ہوتی ہے۔ سائنس نے تو لاکھوں، ہزاروں سال کی تحقیق اور ریسرچ کے بعد اپنی بات ثابت کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اللہ نے اپنی کتاب میں نہایت سادہ اور پختہ الفاظ میں تینوں باتوں کو ارشاد فرمایا ہے کہ:
1- اللہ ایک مشرق اور مغرب کا رب ہے۔ سورہ شعراء آیت نمبر 28 و سورہ مزمل 73 آیت نمبر 9
2 – اللہ دو مشرقوں اور دو مغربوں کا رب ہے۔ سورہ رحمن، آیت نمبر 17
3- اللہ بے شمار مشرقوں اور مغربوں کا رب ہے۔ المعارج ، آیت نمبر 40
مذکورہ بالا قرآنی فرمودات کی تشریح اور تبصرہ کی تکمیل کے لیے مایۂ ناز علمائے کرام کی کاوشوں کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہوںگا۔ خاص کر شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی تفاسیر مندرجہ ذیل ہیں۔
تفسیر:اللہ تعالیٰ نے تو خود اپنی ذات کی قسم کھائی ہے۔ مشرقوں اور مغربوں کا لفظ اس بنا پر استعمال ہوا ہے کہ سال کے دوران میں سورج ہر روز ایک نئے زاویہ سے طلوع اور نئے زاویہ پر غروب ہوتا ہے نیز زمین کے مختلف حصوں پر سورج الگ الگ اوقات میں پے در پے طلوع اور غروب ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے مشرق اور مغرب ایک نہیں ہیں، بلکہ بہت سے ہیں۔ا یک دوسرے اعتبار سے شمال اور جنوب کے مقابلے میں ایک جہت مشرق ہے اور دوسری جہت مغرب ہے۔ اس بنا پر سورہ شعراء آیت نمبر 28 اور سورہ مزمل آیت نمبر 9 میں رب المشرق و المغرب کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ایک اور لحاظ سے زمین کے دو مشرق اور دو مغرب ہیں، کیوں کہ جب زمین کے ایک نصف کرے پر سورج غروب ہوتا ہے تو دوسرے پر طلوع ہوتا ہے۔ اس بنا پر سورہ رحمن، آیت نمبر 17 میں رب المشرقین و رب المغربین کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں۔ خدا نے اپنے رب المشارق والمغارب ہونے کی قسم کھائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم چونکہ مشرقوں اور مغربوں کے مالک ہیں، اس لیے پوری زمین ہمارے قبضۂ قدرت میں ہے اور ہماری گرفت سے بچ نکلنا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ ہم جب چاہیں تمہیں ہلاک کرسکتے ہیں اور تمہاری جگہ دوسری قوموں کو اٹھا سکتے ہیں۔ جو تم سے بہتر ہو۔(مولانا مودودی کی تفسیر)
شیخ الہندمولانا محمود الحسن نے ان آیات کا ترجمہ اور تشریح اس طرح کیا ہے:
ترجمہ: مالک دو مشرق کا دو مغرب کا، پھر سورہ معارج، آیت نمبر 40 کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے۔ ’’پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے رب کی ہم اس پر قادر ہیں کہ بدل کر ان سے بہتر(قوم) لے آئیں۔
تشریح میں ارشاد فرمایا:’’جاڑے اور گرمی میں جن جن نقطوں سے سورج طلوع ہوتا ہے، وہ دو مشرق ہیں اور جہاں جہاں غروب ہوتا ہے، دو مغرب ہیں۔ انہیں مشرقین اور مغربین کے تغیر و تبدل سے موسم اور فصلیں بدلتی ہیں اور طرح طرح کے انقلابات ہوتے ہیں، زمین والوں کے ہزار فوائد و مصالح ان تغیرات سے وابستہ ہیں تو ان کا رد و بدل بھی خدا کی بڑی نعمتوں اور اس کی قدر و عظمت کی نشانی ہے۔ دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں سے مراد جاڑے کے چھوٹے چھوٹے دن اور گرمی کے بڑے بڑے دنوں کے مشرق و مغرب ہوسکتے ہیں اور زمین کے دونوں نصف کروں کے مشرق و مغرب بھی۔ اللہ تعالیٰ کے ان دونوں مشرقوں اور مغربوں کا رب کہنے کے کئی معنی ہیں۔ ایک یہ کہ اسی کے حکم سے طلوع و غروب اور سال کے دوران میں ان کے مسلسل بدلتے رہنے کا یہ نظام قائم ہے۔ دوسرے یہ کہ زمین اور سورج کا مالک و فرماں روا وہی ہے۔ ورنہ ان دونوں کے رب اگر الگ الگ ہوتے تو زمین پر سورج کے طلوع و غروب کا یہ باقاعدہ نظام کیسے قائم ہوسکتا تھا اور دائماً کیسے قائم رہ سکتا تھا۔ تیسرے یہ کہ ان دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک و پروردگار وہی ہے۔ ان کے درمیان رہنے والی مخلوقات، اسی کی ملکیت ہیں، وہی ان کو پال رہا ہے اور اسی کی پرورش کے لیے اس نے زمین پر سورج کے ڈوبنے اور نکلنے کا یہ حکیمانہ نظام قائم کیا ہے۔
سائنس نے جن قرآنی حقائق کو اپنی تحقیق اور ریسرچ سے ثابت کیا ہے۔ وہ سائنسدانوں کی اپنی خوش بختی ہے کہ خدا نے ان سب سے اتنا اہم کام انجام دلایا۔ لیکن ان سب کے سامنے ریسرچ کے وقت غالباً قرآنی آیات نہیں تھیں۔ ان سب نے تو سورج کی گردش، زمین کی روزانہ اور سالانہ گردش پر غور و تدبر کیا اور نتیجہ بالکل درست نکالا۔ جو قرآن کریم کے عین مطابق ہے۔ خدا اپنا کام کسی سے بھی لے لیتا ہے۔ جس پہ وہ کرم فرمائیاں کرنا طے کرلیتا ہے، کیوں کہ اللہ نے سورہ علق ، آیت5میں ارشاد فرمایا ہے:’’انسان کو وہ علم دیا جو وہ جانتا نہیں تھا۔‘‘ قرآن میں ایک مشرق، دو مشرق اور بے شمار مشرقوں کا حوالہ موجود ہے۔ سائنس دانوں نے صرف قرآنی آیات میں موجود سچائی کی تلاش کی ہے اور یہ تلاش خدا کی مرضی اور حکم سے جاری ہوئی ہے اور خوش نصیب سائنس دانوں نے خدا کی اتنی بڑی کرشمہ سازی کا پتہ لگا کر دنیا کو یہ سبق دیا کہ قرآن بلاشبہ خدا کی کتاب ہے۔ (جاری)
حوالہ جات
تفہیم القرآن- مولانا مودودی
جغرافیہ- Concise Atlas

بارش ہونے کے سائنسی رموز اور قرآنی آیات

وصی احمد نعمانی 
پانی  برسنے کے سائنسی حقائق اور قرآنی آیات میں تال میل کو سمجھنے کے لیے بادلوں کی قسموں اور ان کی کارکردگی کو سمجھنا ضروری ہوگا۔ ہمیں معلوم ہے کہ سورج کی نہایت تیز کرنوں کی وجہ سے سمندر کا پانی نہایت تیزی سے بڑی مقدار میں بھاپ بن کر فضا میں اڑتا رہتا ہے۔ گرم بھاپ اوپر اٹھ جاتی ہے اور پھر ٹھنڈی ہوا سے جاکر ٹکراتی ہے۔ اس عمل سے بھاپ اور ٹھنڈی ہوا میں زبردست تصادم ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہی بھاپ جو ٹھنڈی ہوا سے جا ملی تھی بادل میں بدل جاتی ہے۔ اسی بھاپ سے نو قسم کے بادل کی تخلیق ہوتی ہے۔ ان نو قسم کے بادلوں کی فطرت بالکل الگ الگ ہوتی ہے۔ ان کی فطرت کی تشکیل، اس میں موجود ٹھنڈک اور پانی برسانے کی صلاحیت پر منحصر ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے بادل کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں:
(1) سیرس CIRRUS (2) سیروکومولس CIRROCUMULUS (3) کیومولمبسCUMULONIMBUS (4 ) الٹوکومولس ALTOCUMULUS (5) الٹواسٹریٹس ALTOSTRATUS(6) اسٹریٹوکوملس STRATOCUMULUS (7 کیوملسCUMULUS (8) نمبواسٹیریٹسNIMBOSTRATUS (9) اسٹیریٹس ASTRATUS
اگرچہ سائنس دانوں کے نظریہ کے مطابق مندرجہ  بالا 9قسم کے بادل ہوتے ہیں۔ مگر ان میں سے کل چار قسم کے بادل نہایت اہم ہیں، جو بارش ہونے، اولے برسنے، بجلی کڑکنے اور چمکنے کے بارے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ان تمام کردار کا نہایت موزوں ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے۔
1- CIRRUS یا طرۂ ابر، یہ بادل سب سے اونچائی پر ہوتا ہے۔ اس کی اونچائی بارہ ہزار میٹر تک ہوتی ہے۔ اس طرۂ ابر کا مطلب ہوتا ہے ’’گھنگھریالے‘‘ یہ لاطینی لفظ CIRRUS کا ترجمہ ہے۔ اس کی شکل سفید گھنگھریالے پروں جیسی ہوتی ہے، چونکہ نو ہزار میٹر کی اونچائی پر سردی زیادہ ہے۔ اس لیے پانی برف بننا شروع ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس مقام سے اوپر اٹھنے پر بادل جم کر برف بن جاتا ہے اور اولے بن کر گرنے لگتا ہے۔ نازک نازک سے یہ بادل خشک موسم میں نظر آتے ہیں۔ آسمان پر پائے جانے والے یہ بلند ترین بادل ہیں، جو ہواؤں کے رخ پر اڑتے ہیں اور عام طور پر طوفان کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یہ بادل ہماری زمین سے 6.4 سے 8 کلو میٹر کے فاصلے پر ہوتے ہیں۔
2- تودۂ ابر(CUMULUS) یہ بھی لاطینی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ’’ڈھیر‘‘ کے ہیں، یہ پھولے پھولے سفید رنگ کے بادل ہوتے ہیں اور یہ آسمان پر موٹی موٹی تہوں کے ڈھیر کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ ان کی شکل گنبد نما ہوتی ہے، جو بالائی حصہ سے گول اور نچلے حصے سے چپٹے ہوتے ہیں، جب یہ بادل آسمان پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں توآسمان اس طرح دکھائی دیتا ہے، جیسے اس پر روئی کے پہاڑوں کا نہایت ہی خوبصورت سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ اس طرح کے بادل عام طور پر شدید موسم گرما میں دوپہر کے بعد دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے بادلوں کی اونچائی تقریباً چار ہزار سے پانچ ہزار فٹ کی ہوتی ہے۔ ایسے بادل جب پانی سے بھر جاتے ہیں تو گرجنے اور برسنے والے بن جاتے ہیں۔
3- طبق ابر(STRATUS) : یہ بھی لاطینی زبان کا ایک لفظ ہے، جس کے معنی ’’پھیلنے والے‘‘ ہیں۔ آسمان پر یہ بادل چاروں طرف پھیلے ہوئے اور دھندنما ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ بلندی پر نہیں ہوتے ہیں، عام طور پر یہ 2 ہزار سے 7 ہزار فٹ کی بلندی تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ بادل خاموش دکھائی دیتے ہیں۔ مگر یہی بادل موسم خراب ہونے کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ یہ بادل گھنا نہیں ہوتا ہے۔ اس کی بعض قسموں میں ہلکی ہلکی، رم جھم بارش ہوتی ہے۔ ٹھنڈے ملکوں میں زیادہ تر رم جھم رم جھم بارش ہوتی ہے۔ موسلادھار بارش کم ہوتی ہے۔
4-ابر باراں(NIMBUS) : یہ بھی لاطینی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مطلب بارش کا طوفان ہے، انہیں بارشی بادل بھی کہا جاتا ہے۔ ان بادلوں کا رنگ گہرا سلیٹی ہوتاہے۔ ان کی کوئی واضح شکل و صورت نہیں ہوتی ہے۔ انہیں بادلوں کا مشاہدہ کر کے ماہر موسمیات، موسم کے بارے میں پیش گوئی کرتے ہیں، یہ بادل بارش کے لحاظ سے سب بادلوں سے اہم ہے۔ دور دور تک پھیلا ہوا ہوتا ہے اور بڑا ہوتا ہے۔ ہوائی جہاز سے اوپر جا کر دیکھیں تو یہ پہاڑ کی طرح اونچا دکھائی دیتا ہے۔ گرم ممالک میں گرمی کے زمانہ میں بھاپ بن کر اور گرم ہو کر اوپر اٹھتا ہے اور ٹھنڈی ہوا سے ٹکراتا ہے تو اور اوپر بھی چلا جاتا ہے۔ اٹھتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ اونچا بنتا جاتا ہے اور کالی گھٹا کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اسی سے دھواں دھار تیز موسلادھار بارش ہوتی ہے۔ اس کے اوپر کا حصہ تقریباً نو کلومیٹر سے بھی اوپر چلا جاتا ہے۔ ا س سے وہاں ٹھنڈا ہو کر اولے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اس لیے ایسی حالت میں بڑے بڑے اولے بھی گرتے ہیں۔ بارش کے لیے یہ سب سے اہم بادل ہے۔ قرآن پاک میں ایسے بادل کا نہایت صاف لفظوں میں ذکر فرمایا گیا ہے، جو اس طرح ہے’’تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہانک لاتا ہے، بادل کو پھر ان کو ملا دیتا ہے، پھر ان کو رکھتا ہے تہہ بہ تہہ پھر تم دیکھو گے کہ مینہ نکلتا ہے اس کے بیچ سے۔ اتارتا ہے آسمان سے جو (بادل) پہاڑ کی طرح ہوتا ہے۔ اس میں اولے ہوتے ہیں۔ پھر وہ اولے ڈالتا ہے، جس پر چاہے اور بچا دیتا ہے جس کو چاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کی بجلی کی کوند آنکھوں کو اچک لے جائے۔‘‘
اس بادل میں وہ تمام صفات ہیں جن کا ذکر قرآن نے کیا ہے۔ یعنی بادل کا پہاڑ کی طرح بلند ہونا۔ تہہ بہ تہہ ہونا، اونچائی پر جا کر ٹھنڈا ہونا، پھر ٹھنڈا ہو کر اولہ کی شکل اختیار کرلینا اور بارش کے ساتھ اولہ کا برسنا وغیرہ، کیوںکہ ایسے بادل جب بہت زیادہ بلندی پر پہنچتے ہیں تو زیادہ ٹھنڈک ملنے کی وجہ سے وہاں بڑی بڑی بوندیں بننے لگ جاتی ہیں اور بڑی بڑی بوندوں والی بارش کی شکل میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور اگر یہی بادل درمیانی بلندی پر پہنچتے ہیں یا نیچے نیچے ہوتے ہیں تو بوندیں بھی چھوٹی چھوٹی بنتی ہیں۔ اس لیے چھوٹی چھوٹی بوندوں والی ہی بارش ہوتی ہے، اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کیومولمبس بادل (CUMULONIMBUS) یا ابر باراں کا سفر نیچے سے اوپر کی طرف ہوتا ہے اور ٹھنڈی ہواؤں سے متصادم ہو کر چکر کھانے لگتا ہے تو قدرتی طور پر اس سے اوپر کے حصے میں مثبت چارج POSITIVE CHARGES کی خصوصیت والی بجلی پیدا ہوجاتی ہے اور اس بادل کے زیریں حصے میں منفی چارج NEGATIVE CHARGES کی بجلی پیدا ہوجاتی ہے، پھر اس طرح بادل کے آپسی تصادم کے نتیجے میں منفی اور مثبت دونوں طرح کے چارجز یکجا ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے بجلی کی رو دوڑ جاتی ہے اور بادل کے نیچے سے اوپر تک کے حصے بیک وقت جل اٹھتے ہیں، یہی جلتی ہوئی بجلی ہمیں زمین سے نظر آتی ہے۔ اسی کو ہم بجلی کی ’’کوند‘‘ کہتے ہیں۔
یہی گرم بادل جب ٹھنڈی ہوا سے ٹکراتے ہیں اور چکر کھاتے ہیں تو ایک زبردست آواز پیدا ہوتی ہے، اسی آواز کو ہم ’’کڑک‘‘ کہتے ہیں۔ بجلی اور کڑک عام طور پر کیومولمبس بادل میں پیدا ہوتی ہیں، کیوں کہ اسی میں بادل ایک دوسرے سے زبردست انداز میں ٹکراتے ہیں اور بھیانک آواز اور تیز روشنی پیدا ہوتی ہے، جس سے لگتا ہے کہ آنکھ کی روشنی اچک لی جائے گی اور کبھی کبھی تو اس کی چمک سے آنکھوں کے پتھرا جانے کا احساس ہوتا ہے، ہمیں یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ پانی کا سمندر سے بھاپ بن کر اڑنا، آسمان کی بلندیوں تک پہنچنا، پھر وہاں سے ٹھنڈک لے کر بادل کی شکل میں بدلنا اور ٹھنڈا ہو کر برف، اولے اور بوندوں کی شکل اختیار کرنا اور زمین پر گرنا، ندی، نالوں، پہاڑوں، جنگلوں، کھیتوں، سبزہ زاروں کا سفر طے کر کے پھر سے انجانے سمندروں میں مل جانا اور پھر بھاپ بن کر آسمان سے زمین کا سفر کرتے رہنا۔ یہ خدا کا مکمل نظام ہے، جس کے ذریعہ پانی کی سائیکل کوبروئے کار لا کر اپنے بندوں اور تمام مخلوق کو پانی پہنچاتا رہتا ہے۔ یہ ایک زبردست اور مکمل نظام ہے، جو صرف خدا کے دست قدرت میں ہے، پانی کی اس سائیکل کا نظریہ 1580 میں ’’برنارڈ پیلسی‘‘ نے پیش کیا تھا، جس میں اس نے اس بات کی وضاحت کردی تھی کہ سمندروں سے بخارات کی شکل میں اٹھنے والا پانی کس طرح ٹھنڈا ہو کر بادلوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ پھر یہ بادل زمین پر آبادی کی جانب حرکت کرتے ہیں اور بلندی پر چڑھ کر ٹھنڈک کی وجہ سے منجمد ہو کر بارش کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ یہی بارش کا پانی پھر جھیلوں، ندی نالوں میں جمع ہوتا ہے اور پھر واپس سمندر میں پہنچ جاتا ہے اور پانی کا یہ چکر چلتا رہتا ہے۔ اتنا بڑا نظام مکمل درستگی اور پختگی کے ساتھ ہمیشہ چلتے رہنا صرف خدا کی کرشمہ سازی اور اس کی ربوبیت کی بے مثال نشانی ہے۔
سائنس نے آج تسلیم کرلیا ہے کہ ’’یہ حقیقت ہے کہ آج ہم جو پانی استعمال کرتے ہیں، وہ کروڑوں، اربوں سالوں سے موجود ہے اور اس کی موجودہ مقدار جو ہمیں میسر ہے، اس میں کوئی بہت زیادہ تبدیلی نہیں پیدا ہوئی ہے۔ پانی پوری زمین میں مختلف حالتوں میں اور شکلوں میں استعمال ہورہا ہے۔ اس کو پودے اور جانور بھی استعمال کرتے ہیں۔ مگر حقیقتاً یہ کبھی بھی غائب نہیں ہوتا ہے، یہ ایک بہت بڑے دائرے کی شکل میں بہتا رہتا ہے، اسی کو ہم Hydrolgic Cycle کہتے ہیں۔(بحوالہ سائنس خدا کے حضور میں)
قرآن کریم میں بارش کے برسنے کے جو مراحل بتائے گے ہیں، وہ اور سائنس نے جو کچھ بھی اب تک تحقیق اور ریسرچ کر کے ثابت کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، ان دونوں میں بڑی حد تک مماثلت ہے۔
اللہ نے سورہ الروم ، آیت نمبر 30 میں ارشاد فرمایا ہے:’’اللہ وہ ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے تو وہ بادل کواٹھا لاتی ہیں۔ پھر جیسے چاہتا ہے اس بادل کو آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اسے ٹکڑیاں بنا دیتا ہے، پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے اس میں سے نکلتے ہیں پھر جب اللہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہے بارش برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں۔‘‘
یعنی پہلے مرحلہ میں جب سمندروں میں جھاگ پیدا ہوتی ہے تو ان گنت بلبلے بنتے ہیں، اس سے پانی کے ذرات بلند ہو کر آسمان کی طرف خارج ہوتے ہیں، ان پانی کے ذرات میں نمک کافی مقدار میں ہوتا ہے، ان کو پھر ہوائیں اپنے دوش پر لے لیتی ہیں اور کرہ ہوائی میں کافی بلندیوں کی جانب لے جاتی ہیں۔ یہ ذرات جن کو ایروسول بھی کہتے ہیں وہ ’’آبی پھندوں‘‘ کا کام کرتے ہیں اور اپنے گرد پانی کے ان بخارات کو جمع کر کے بادلوں کے قطرے بناتے ہیں، یہ بخارات چھوٹے چھوٹے قطروں کی شکل میں سمندروں سے بلندی کی طرف اٹھتے ہیں، دوسرے مرحلہ میں یہ ہوا میں بادل کو اوپر اٹھا لاتی ہیں۔ پھر خدا ان بادلوں کو جیسے چاہتا ہے، آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور الگ الگ ٹکڑیوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ اس طرح بادل پانی کے ان بخارات سے بنتے ہیں جو نمکین بلوروں یا ہوا میں مٹی کے ذرات کے گرد منجمد ہوجاتے ہیں۔ ان بادلوں میں پانی کے قطرے چونکہ بہت چھوٹے چھوٹے یعنی ان کا ’’قطر‘‘ ایک یا دو ملی میٹر کا ہوتاہے۔ اس لیے یہ بادل ہوا میں معلق ہو کر آسمان پر پھیل جاتے ہیں، اس طرح ہم کہتے ہیں کہ مطلع ابر آلود ہوگیا۔ تیسرے مرحلہ میں پھر جب اللہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہے بارش برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہوجاتے ہیں یعنی پانی کے جو قطرے نمکین بلوروںاور مٹی کے ذرات کے گرد جمع ہوجاتے ہیں دبیز اور موٹے ہوکر بارش کے قطروں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اس طرح جو قطرے ہوا سے زیادہ بھاری ہوجاتے ہیں، وہ بادلوں کو چھوڑ کر زمین پر بارش کی شکل میں برسنے لگتے ہیں۔(اللہ کی نشانیاں عقل والوں کے لیے، صفحہ 236)        (جاری)
حوالہ جات:
1- قرآن کریم
2- سائنس خدا کے حضور میں
2- اللہ کی نشانیان عقل والوں کے لیے

بارش کی بوندوں سے سخت چوٹیں آ سکتی تھیں

۔۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ
وصی احمد نعمانی 
گزشتہمضمون میں قارئین حضرات نے ملاحظہ کیاہے کہ پانی کی بوندیں آسمان سے 1200 میٹر سے 10000 میٹر تک کی بلندی سے زمین پر گرتی ہیں، اس کا قطرہ لگ بھگ اعشاریہ ایک یا اعشاریہ صفر دو ملی میٹر کی گولائی کا ہوتا ہے۔ اگر پانی کی بوند کے وزن اور گولائی کے برابر اسی بلندی سے کسی چیز کو زمین پر گرایا جائے تو زمین پر آتے آتے اس چیز کی رفتار 558 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوجائے گی، لیکن پانی کی بوندیں جیسے جیسے اس بلندی سے گر کر زمین تک پہنچتی ہیں تو اس کی رفتار صرف 8 سے 10 کلو میٹر فی گھنٹہ کی ہوجاتی ہے یعنی پانی کی بوندیں نہایت آہستہ سے زمین پر گرتی ہیں جو زمین پر رہنے والے جانداروں کو شدید چوٹ سے بچاتی ہیں۔ اسی طرح پانی کی بوند کے وزن کے برابر کوئی دوسری ٹھوس چیز بارہ سو میٹر یا دس ہزار میٹر کی بلندی سے زمین پر گرائی جائے تو زمین پر اس کی مار یا چوٹ اتنی ہی ہوگی، جتنی مار یا چوٹ اس باٹ یا وزن دار چیز سے ہوگی، جو 15 سینٹی میٹر کی بلندی سے یا 110 سینٹی میٹر کی بلندی سے گرائی جائے اور وہ وزنی چیز ایک کلو گرام کے برابر ہو۔ لیکن یہ خدا کی قدرت ہے کہ وہ ایک سکینڈ میں 16 ملین ٹن پانی زمین پر بوندوں کی شکل میں گراتا ہے مگر چوٹ بالکل نہیں لگتی ہے، بلکہ بارش کی بوندوں میں بچے اور بڑوں کو بھیگنے میں مدد ملتی ہے۔
اگر خدا کی کرشمہ سازی پانی کو بوندوں کی شکل میں برسانے میں کارفرما نہیں ہوتی تو ہر بوند زمین پر 558 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گرتی اور زمین کی ساری چیزوں کو نیست و نابود کردیتی، کیوں کہ ہر بوند زمین کو زبردست چوٹ پہنچاتی اور ایک کلو گرام کی کسی وزنی چیز سے 15 سینٹی میٹر کی بلندی یا 110 سینٹی میٹر کی بلندی سے چوٹ پہنچانے کے مترادف ہوتا۔ کسی جاندار چیز کا نام و نشان نہیں ہوتا، کوئی پیڑ یا پودا باقی نہیں بچتا۔ یہ ایک سائنسی تجزیہ ہے جو پانی کی بوندوں اور اسی کے وزن یا جسامت کی دوسری ٹھوس چیز کے زمین پر گرنے سے تباہی کے ثبوت پیش کرتا ہے۔ سائنس کے اس تحقیقی نتائج کی روشنی میں کعبہ شریف پر ابرہہ کی فوج کے ذریعہ حملہ کرنے کے واقعہ کو سامنے رکھ کر اور چڑیوں کے ذریعہ اپنی چونچوں اور پنجوں میں کنکریاں دبا کر انہیں نیچے گرانے کا محاسبہ اور تجزیہ کرتے ہیں تو آج کی سائنس ببانگ دہل اس واقعہ کو درست، سچ اور حقیقت پر مبنی قرار دیتی ہے۔ آئیے اس اہم اور تاریخی واقعہ کا سرسری جائزہ لینے کی کوشش کریں اور سائنسی اعتبار سے غور کریں کہ کس طرح معمولی چڑیوں کے جھنڈ نے چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے ابرہہ کے ہاتھیوں پر اور اس کی فوج پر حملہ کر کے ان سب کا بھرتا بنا دیا۔
ابرہہ جو شہنشاہ وقت تھا اس نے بہانہ بنا کر کعبہ شریف کو منہدم کرنے اور اس کے نام و نشان کو مٹانے کا تہیہ کرلیا تھا کیوں کہ اس کے پاس رپورٹ پہنچی تھی کہ کعبہ کے ماننے والوں نے اس کے کلیسا کی توہین کی ہے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے ابرہہ نے کعبہ کو ڈھانے کا فیصلہ کرلیا اور 570 یا 571 عیسوی میں ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ یا بہ روایت دیگر نو ہاتھی لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں پہلے یمن کے سردار ذونفر نے عربوں کا ایک لشکر جمع کرکے ابرہہ کی مزاحمت کی، مگر وہ شکست کھا کر گرفتار کرلیا گیا۔ ابرہہ جب طائف کے قریب پہنچا تو بنی ثقیف نے بھی اپنے اندر مقابلہ کی طاقت نہ پا کر ابرہہ سے پناہ حاصل کرلی۔ جب مکہ تین کوس رہ گیا تو اس کی ہمت زیادہ بڑھنے لگی۔ ابرہہ اپنے ہم نواؤں کی مدد سے قریش کے بہت سے مویشی کو لوٹ کر لے گیا۔ ان لوٹے ہوئے مویشیوں میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے بھی دو سو اونٹ تھے۔ ابرہہ نے مسلمانوں کو پیغام دیا کہ وہ ان سے کوئی دشمنی نہیں رکھتا ہے۔ وہ تو صرف کعبہ کو ڈھانے آیا ہے۔ اس نے اپنے ایلچی کو کہا کہ وہ عرب کے سردار کو پکڑ کر اس کے سامنے حاضر کرے۔ مکہ کے سب سے بڑے سردار حضرت عبدالمطلب تھے۔ وہ طلب کیے گئے۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ ہم ابرہہ سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کا گھر ہے، وہ چاہے گا تو اپنے گھر کو بچالے گا۔ حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ سے کہا کہ میرے جو اونٹ پکڑ لیے گئے ہیں، وہ واپس کردیے جائیں۔ اس مانگ پر ابرہہ نے کہا کہ آپ کی ذات سے اور شخصیت سے بے حد متاثر ہوا تھالیکن آپ کی صرف اونٹوں کی واپسی کی مانگ نے ہمیں آپ کے بارے میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور کردیا اور میری نگاہ سے آپ کو گرادیا۔ آپ صرف اپنے اونٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ گھر جو آپ کا اور آپ کے دین آبائی کا مرجع ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ہیں۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا ’’میں تو صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور انہی کے بارے میں آپ سے درخواست کر رہا ہوں۔ رہا یہ گھر تو اس کا ایک رب ہے، وہ اس کی حفاظت خود کرے گا۔‘‘
اس بات پر ابرہہ نے کہا کہ وہ اس کو (کعبہ) مجھ سے نہیں بچاسکے گا۔ عبدالمطلب نے کہا ’’آپ جانیں اور وہ جانے‘‘، یہ کہہ کر وہ ابرہہ کے پاس سے اٹھ گئے اور اپنے اونٹ واپس لے گئے۔ عبدالمطلب نے ایک روایت کے مطابق ابرہہ سے کہا ’’یہ اللہ کا گھر ہے۔ آج تک اس نے کسی کو اس پر مسلط نہیں ہونے دیا ہے۔‘‘ ابرہہ نے جواب دیا ہم اس کو منہدم کیے بغیر نہیں پلٹیںگے۔ عبدالمطلب نے کہا آپ جو چاہیں ہم سے لے لیں اور واپس چلے جائیں، مگر ابرہہ نے انکار کردیا اور عبدالمطلب کو پیچھے چھوڑ کر لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم دے دیا۔
لشکر سے واپس آکر عبدالمطلب نے قریش والوں سے کہا کہ اپنے بال بچوں کو لے کر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ہو اور پھر چند دیگر سرداروں کے ساتھ حرم میں داخل ہوئے اور کعبہ کی کنڈی پکڑ کر رو رو کر اس کی حفاظت کے لیے خدا سے دعائیں کیں۔ پھر اپنے ساتھیوں کے ساتھ حفاظت کی غرض سے پہاڑوں میں چلے گئے۔
دوسرے روز ابرہہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا۔ مگر اس کا ایک خاص ہاتھی جس کا نام ’’محمود‘‘ تھا وہ تو آگے آگے تھا، لیکن یکا یک بیٹھ گیا۔ اس کو بہت تبر مارے گئے، آنکھوں سے کچوکے دیے گئے، یہاں تک کہ اس کو زخمی کردیا گیا۔ مگر وہ نہ ہلا اسے کعبہ کے رخ کے علاوہ کسی طرف بھی ہانکا جاتا تھا وہ چل پڑتا تھا۔ مگر کعبہ کی طرف اس پر حملہ کی غرض سے ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا۔ یہ سب خدا کی کرشمہ سازی تھی کہ ایک جانور کے دل میں بھی احترام کعبہ دے رکھا تھا۔ اس نے محمود نام کی مناسبت کی لاج رکھی۔
اتنے میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی چونچوں میں سنگریزے لیے ہوئے آئے اور انہوں نے اس لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کردی۔ جس پر بھی کنکر گرتے تھے، اس کا جسم گلنا شروع ہوجاتا تھا۔ محمد بن اسحق اور عکرمہ کی روایت ہے کہ یہ چیچک کا مرض تھا، ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ جس پر کوئی کنکری گرتی اسے سخت کھجلی لاحق ہوجاتی اور کھجاتے ہی جلد پھٹتی اور گوشت جھڑنا شروع ہوجاتا۔ ابن عباسؓ کی دوسری روایت ہے کہ گوشت اور خون پانی کی طرح بہنے لگتا اور ہڈیاں نکل آتی تھیں۔ خود ابرہہ کے ساتھ بھی یہی ہوا، اس کا جسم ٹکرے ٹکڑے ہو کر گر رہا تھا اور جہاں سے کوئی ٹکڑا گرتا وہاں سے پیپ اور لہو بہنے لگتا تھا۔ افراتفری میں وہ یمن کی طرف بھاگنے لگے۔ اس بھگدڑ میں یہ لوگ گر گر کر مرتے رہے۔
جس سال یہ واقعہ پیش آیا، اہل عرب اسے عام الفیل(ہاتھیوں کا سال) کہتے ہیں اور اسی سال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ متفقہ طور پر یہ خیال ہے کہ یہ واقعہ محرم کے ماہ میں پیش آیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت ربیع الاول کے مہینہ میں ہوئی تھی۔ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ واقعہ فیل کے 50 دن کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اسی روز آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ گویا کہ یہ ایک آسمانی نشانی تھی، جو آپ کی آمد آمد پر ہوئی۔ مذکورہ بالا تاریخی واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چڑیوں نے اپنی چونچوں اور پنجوں سے جو کنکریاں ابرہہ کے ہاتھ پر گرائیں۔ اس کا وزن اتنا زیادہ تھا اور اس سے چوٹیں اتنی زبردست پڑتی تھیں کہ ہاتھیوں کے بھیس نکل گئے۔ یہ چڑیاں سبز اور زرد رنگ کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تھیں۔ ان عجیب و غریب پرندوں کے غول کے غول کنکریاں لشکر پر برسانے لگے۔خدا کی قدرت سے وہ کنکریاں یا پتھریاں بندوق کی گولی سے زیادہ کام کرتی تھیں، جسے لگتیں ایک طرف سے گھس کر دوسری طرف سے نکل جاتی تھیں اور عجیب طرح کا سمی مادہ چھوڑ جاتی تھیں، ان کنکریوں کی چوٹ سے ہاتھی اور فوجی چور چور ہوگئے۔
گویا کہ آج سائنسی اعتبار سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اگر کوئی ٹھوس چیز جس کی جسامت اور وزن پانی کی بوند کی جسامت اور وزن کے برابر ہو اور وہ کسی جاندار پر گرے تو اسے اتنی چوٹ پہنچے گی کہ اس کا جسم چور چور ہوجائے گا۔ سائنسی تجزیہ کے مطابق ہاتھی جیسے وزنی اور بھاری جانور کی موت ایک مناسب دوری سے کنکری گرانے سے ہوسکتی ہے۔ جیسے ہوائی جہاز سے کوئی معمولی چڑیا بھی ٹکرا جائے تو اس کے چیتھڑے ہوجاتے ہیں۔ آج کے سائنسی نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن خدا کی کتاب ہے، کیوں کہ وہ باتیں جو اس میں مذکور ہیں، سائنس لاکھوں ہزاروں سال کی تحقیق و ریسرچ کے بعد اب بیان کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ آخر ان باتوں کو خدا کے علاوہ کون بتا سکتا ہے اور ثابت کرسکتا ہے۔
(جاری)
حوالہ جات
(1) تفہیم القرآن
(2) سائنس خداکے حضور میں

گہرے سمندروں میں بے شمار ندیاں بہتی ہیں

وسیع احمد نعمانی
اللہ کی کرشمہ سازیاں یوں تو ہر ذرہ میں پنہاں ہیں اور آشکار بھی ہیں لیکن سمندروں میں پوشیدہ خدا کی خلّاقی کو سائنس کی مدد سے سمجھنے میں بہت آسانی ہوگئی ہے۔مثال کے طور پرسائنس دانوں نے اپنی محنت اور عرق ریزی سے لبریز تحقیقات کے ذریعہ دو اہم باتیں ثابت کردی ہیں اور یہ دونوں کرشمے خدا کی کبریائی کا گن گاتے ہیں جو صاف لفظوں میں اللہ کی کتاب میں بیان کئے گئے ہیں۔وہ دونوں باتیں یہ ہیں:
1 ۔سمندر کے پانی کے اندر بے مثال تاریکی ہے، جہاں ہاتھ کو ہاتھ نظر نہیں آتا ہے۔2۔ سمندر کی تہوں میں بے شمار ندیاں بہتی ہیں، جو پانی کی لہروں کی شکل میں موجود ہیں ۔ سمندر کے اندر میٹھے اور کھارے پانی کے دریا بہتے ہیں مگر آپس میں ملتے نہیں ہیں۔یہ دونوں اہم نکتے قرآن کریم کے سورہ رحمن چپیٹر نمبر 55 اور آیت نمبر 19-20 کے ساتھ ہی سورہ رفرقان چیپٹر نمبر 25، آیت نمبر 53 میں بیان کردیے گئے ہیں۔ان آیات کی تشریح اور ترجمہ سے یہ بات ثابت ہوجاتی  ہے کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں سائنس نے تحقیق کرکے اس بات کی مزید شہادت پیش کی ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور اس کا لکھنے والا صرف قادر مطلق اللہ ہی ہے۔ورنہ جو باتیں آج سے 1450 سال قبل اس آسمانی کتاب میں مذکور ہیں ان سب کو سائنس اب کیسے ثابت کرتی جارہی ہے،اس بات کو جانے بغیر کہ اللہ کی کتاب میں سائنس کی صدیوں کی محنت سے حاصل شدہ نتائج تو کتاب ُ اللہ  میں شروع سے ہی موجود ہیں۔کیوں کہ جب سائنس دانوں  نے ان باتوں کو ثابت کیا ، اس وقت ان کے سامنے قرآنی آیات نہیں تھیں بلکہ ان کی اپنی منفرد جستجو اور تلاش تھی۔ ان آیات کا ترجمہ پہلے جان لیں تو آگے کی بات سمجھ میں آسانی سے آسکے گی۔
ترجمہ سورہ رحمن آیت نمبر 19-20 : ’’ اس نے دو دریا یا سمندر رواں کئے جو باہم ملتے ہیں (پھر بھی) ان کے درمیان ایک پردہ ہے،وہ اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے‘‘۔دوسرے مقام پر سورہ  فرقان  چیپٹر نمبر 25 ،آیت نمبر 53 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اور وہی تو ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے،جن میں سے ایک کا پانی لذیذ و شیریں ہے اور دوسرے کا کھارا کڑوا، پھر ان کے درمیان ایک پردہ اور سخت روک کھڑی کردی ہے‘‘۔یعنی اگر ہم ان آیات پر اور سمندری سائنسی تحقیقات پر غور کریں تو مندرجہ ذیل باتیں مزید سامنے آتی ہیں وہ یہ ہے کہ سمندر کے اندر جو ندیاں رواں ہیںوہ ایک ساتھ بہنے کے باوجود ان ندیوں کے پانی آپس میں ملتے نہیں ہیں بلکہ اپنی اپنی لذتوں کے ساتھ الگ الگ اپنے راستے،حدود میں بہتی رہتی ہیں۔یعنی ایک ندی کا میٹھا پانی دوسری ندی کے کھارے پانی میں ملتا نہیں ہے۔ یہ درحقیقت خدا کی کرشمہ سازی ہے ورنہ پانی ایک ساتھ ہے اور آپس میں ملے نہیں کہ صرف معجزہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ سمندر کیپانی کے اندر اتنی زبردست تاریکی ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ نظر نہیں آتا ہے۔ یہ تاریکی بے مثال ہے کیونکہ ایسا اندھیرا کہیں نہیں پایا جاتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ سمندر کے اندر بذات خود بے شمار دریا ، یا ندیاں رواں دواں ہیں، جن کی خصوصیت یہ ہے کہ بے شمار جاندار اپنی اپنی  ندی میںزندگی گزارتے ہیں اور  اپنی اپنی ندیوں میں رہ کر ہی افزائش نسل کی ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔چوتھی بات یہ ہے کہ یہ ندیاں ساتھ ساتھ بہنے کے باوجود اپنی کثافت، لذت ٹمپریچر کی وجہ سے ایک دوسرے سے بالکل میل نہیں کھاتی ہیں۔ مولانا مودودی نے ان آیات کی تشریح میں کچھ یوں لکھا ہے ’’ یہ کیفیت ہر اس جگہ رونما ہوتی ہے جہاں کوئی بڑا دریا سمندر  میں آکر گرتا ہے اس کے علاوہ سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں، جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس قائم رکھتا ہے۔ترکی کا امیر البحر سید علی رئیس (کاتب رومی) اپنی کتاب ’’ مِرأۃ  الممالک‘‘  میں جو سولہویں صدی عیسوی کی تصنیف ہے ، خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ وہاں آب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں، جن میں سے میں  خود اپنے بیڑے کے لئے پینے کا پانی حاصل کرتا رہا ہوں۔ موجودہ زمانہ میں جب امریکی کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداء میں وہ خلیج فارس کے ان چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی، بعد میں ’’ ظہران‘‘ کے پاس کنویں کھود لئے گئے اور ان سے پانی لیا جانے لگا۔ بحرین کے قریب بھی سمندر کی تہہ میں آبِ شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں ( تفہیم القرآن جلد سوئم سورہ فرقان ، حاشیہ 68 )
جدید سائنس نے قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات کی ہم نوائی میں بغیر اس نیت اور ارادہ کے کہ وہ قرآنی آیات پر اعتماد کی وجہ سے یہ بات ثابت کر رہی ہے، کہا ہے ’’دو مختلف سمندر ،جہاں یہ آپس میں ملتے ہیں وہاں ان کے درمیان ایک ایسا پردہ حائل ہوتا ہے کہ ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھتا ہے اور ہر سمندر کا اپنا درجہ ٔ حرارت  ، کھارہ پن  اور اپنی کثافت ہوتی ہے‘‘
اللہ کی یہ کرشمہ سازی دنیا کے مختلف سمندر میں بالکل عیاں ہے۔ جبل طارق یا Mount Gibraltor  کے مقام پر جہاں بحیرہ روم  اور بحر اوقیانوس آکر ملتے ہیں۔ وہ دونوں سمندروں کے پانی کی کثافت یا کھارہ پنSalinity دس ڈگری حرارت پر 36 اور گیارہ اعشاریہ پانچ ڈگری حرارت پر بھی 36 ہی ہوتی ہے ۔ بحیرہ روم  اور بحر اوقیانوس کے پانی کی رَو ایک دوسرے میں میلوں میل داخل ہوجاتی ہے مگر ایک دوسرے سمندر کا پانی اپنے کھارا پن ، حرارت اور کثافت کو  برقرار رکھتے ہوئے بھی ایک دوسرے میں ضم نہیں ہوتے ہیں، کیونکہ ان دونوں سمندروں کے دونوں پانیوں کے بہائوں کے درمیان  ایک آڑ ہے یا پردہ ہے یا برزخ ہے جو ایک دوسرے کو آپس میں ملنے نہیں دیتا ہے ۔ دو سمندر کے درمیان بہنے والی ندیوں کی اسی خصوصیت کو سورہ رحمن میں بیان کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ سائوتھ افریقہ کے ان مقامات پر جہاں بحر اوقیانوس اور بحر ہند ملتے ہیں سمندر کے اندر کی ندیوں کی اسی خصوصیت کا بیان موجود ہے۔ اسی طرح دریائے نیل، جو بحیرہ روم میں جاکر ملتا ہے،میلوں پانی کی یہی خصوصیت آپس میں برزخ(رکاوٹ) کے ساتھ موجود ہے۔برزخ یا رکاوٹ اس قدر مضبوط اور پختہ ہے کہ بڑی سے بڑی لہریں ، طاقتور موجیں، یہاں تک کہ مد وجزر بھی سمندری پانی کی اس خصوصیت کو بدل نہیں پاتی ہیں اور سمندر کے اندر بہنے والی بے شمار ندیوں اور دریائوں کا اپنا وجود اپنی کثافت، حرارت، کھارہ پن یا میٹھاپن کے ساتھ باقی رہتا ہے۔ یہ اللہ کی شان ہے کہ انسانی آنکھیں دو سمندرکے ملاپ کو نہیں دیکھ سکتی ہیں اور نہ سمندروں کے اندر بہنے والی ندیوں اور دریائوں کو دیکھ سکتی ہیں اور نہ ان کے درمیان پیدا ہونے اور بہنے والی لہروں کا مشاہدہ کرسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدّ و جزر کے دہانے پر بھی بیک وقت موجود تین طرح کے پانی کا بھی مشاہدہ نہیں کرسکتی ہیں۔یعنی صاف و شفاف ، نمکین پانی اور دونوں کو علیحدہ کرنے والے برزخ کو انسان اپنی ننگی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا ہے۔اس کا اندازہ یا مشاہدہ اب صرف سائنسی آلات کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔
اسی طرح سمندر کے اندر پانی کی تہوں میں زبردست تاریکی ہے۔اسے تو انسانی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں ، مگر ایسا بے مثال اندھیرا کیوں ہے اس سلسلے میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں سائنس نے نئے نئے آلات کی ایجاد کے بعد معلومات حاصل کر لی ہے۔جدید سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ 200 میٹر یا اس سے زیادہ گہرائی پر تاریکی ہے، مگر 1000 میٹر کی گہرائی کے بعد نہایت گہرا اندھیرا ہے ۔ قرآن کریم نے اس تاریکی یا اندھیرے کی مثال سورہ النور آیت نمبر 40  میں کچھ اس طرح پیش کی ہے ’’ یا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اس پر ایک اور موج، اور اس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے،آدمی اپنا ہاتھنکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے، جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لئے پھر کوئی نور نہیں ۔g

سمندر میں ہونے بہنے والی ندیاں اور تاریکیاں

وصی احمد نعمانی 
سٹیلائٹ کے زریعہ لئے گئے سمندر کے فوٹو سے پتہ چلتا ہے کہ تمام سمندر یا بحر ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ وہ سب کے سب آپس میں ایک دوسرے  سے مختلف ہیں،کیونکہ ان کے درجۂ حرارت ، کھاراپن کثافت اور آکسیجن کی مقدار کی بنیاد پر ان کی نوعیت الگ الگ اور مختلف ہیں۔ سٹیلائٹ  کے ذریعہ لئے گئے فوٹو سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ مختلف رنگ کے ہیں۔ ان میں سے کچھ گہرے نیلے رنگ کے ہیں تو کچھ کالے اور اسی طرح کچھ سمندر پیلے رنگ کے ہیں۔ایسا صرف اس لئے ہے کہ ان تمام سمندر یا بحور کے درجۂ حرارت مختلف ہیں۔ تھرمل فوٹو ٹیکنیک کے ذریعہ لئے گئے سمندری اور بحری عکسوں سے پتہ چلتا ہے کہ تمام سمندر یا بحور ایک دوسرے سے ایک باریک سفید خط (White line ) کے ذریعہ الگ رہ کر بہتے ہیں۔ اسی سفید خط یا لائن کو برزخ یا Barrier  کہتے ہیں۔اسی سفید  باریک خط کو جو تمام سمندروں کو ایک دوسرے سے الگ کرتے ہیں اور یہ سمندر کی لہریں یا ندیاں ایک دوسرے کے ساتھ بہہ کر بھی ایک دوسرے سے ملتے نہیں ہیں، اسی خصوصیت کو سورہ رحمن چیپٹر نمبر 55  اور آیت نمبر 18-20 میں بیان فرمایا گیا ہے کہ ’’ اس نے چلائے دو دریا مل کر بہنے والے۔ دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے‘‘۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ تمام پانی، جو سمندروں ، ندیوں، نالوں، جھرنوں ، تالابوں وغیرہ میں ملتے ہیں سب کے سب ایک ہی ذریعہ سے دستیاب ہوتے ہیں۔وہ یہ ہے کہ ہائیڈروجن کے دو ایٹم آکسیجن کے ایک ایٹم سے مل کر پانی بناتے ہیں۔ اور یہی تخلیق پوری کائنات میں ہے اور یہ پانی ہمیشہ اور ہر حالت میں بہتا ہی رہتا ہے۔ برزخوں کے درمیان یا برزخ سے الگ ہوکر، لیکن جب سمندر میں اس پانی کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو ایک بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ سمندروں کے درمیان یہی پانی ندی اور دریا کی شکل میں اور اکثر مختلف دھارائوں  اور موجوں کی شکل میں بہتے ہیں۔ اس کے باوجود برزخ کی وجہ سے آپس میں ایک نوعیت کا پانی دوسری نوعیت کے پانی سے بالکل نہیں ملتا ہے۔قرآن کریم نے اس معجزہ کو اپنے مخصوص  انداز میں بیان فرمایا ہے۔سمندری پانی کی گہرائی کے اعتبار سے سمندر کے تین حصے ہوتے ہیں۔
1۔ باتھل زون(Bathal zone ) یہ زون سمندر کی سطح سے  دو ہزار میٹر گہرا ہوتا ہے ۔چھوٹی مچھلیاں اور پانی کے جہاز اسی زون میں چلتے ہیں، چونکہ یہ باتھل زون سمندر کا اوپری حصہ ہے اس لئے سورج کی روشنی بھی اس زون  میں پہنچتی ہیں لہٰذا  اس زون میں کافی دور تک روشنی  ہوتی ہے اور پانی بھی گرم ہوتا ہے۔ گرم پانی کی رَو بھی اوپر اوپر سمندر کے اس زون میں بہتی رہتی ہے۔یہ رَو گرم  ممالک سے ٹھنڈے ممالک کی طرف بہتی ہے۔ ان روئوں کے بہنے کی وجہ سے  ایسا لگتا ہے کہ سمندر  میں بڑی بڑی اور گہری ندیاں بہتی ہیں۔ انہی ندیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اپنی اپنی سمندری خصوصیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملتی نہیں ہیں۔
2۔ اس باتھل زون کے ٹھیک نیچے ابیسل زون ’  Abyssal Zone ‘ ہوتا ہے۔ اس کی گہرائی بھی دو ہزار میٹر  ہوتی ہے۔ اسے سمندر  کا درمیانی زون کہا جاتا ہے۔ اس زون میں سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی ہے۔ اس لئے یہاں اندھیرا ہوتا ہے ۔ چونکہ روشنی نہیں پہنچتی ہے ، اس لئے  اس درمیانی زون میں گرمی بھی بہت کم ہوتی ہے۔ لہٰذا  ٹھنڈی زیادہ ہوتی ہے۔ اس زون میں درمیانی وزن کے سمندری  جانور زندگی گزارتے  ہیں۔ پہلا زون دوسرے زون سے ایک برزخ کے ذریعہ الگ ہوکر بہتا ہے۔
3 ۔ ہاڈل زون ’  Hadal Zone‘ یہ زون سمندر کا تیسرا اور گہرا زون ہے۔ اس کی گہرائی چھ ہزار میٹر تک ہوتی ہے، جو سمندر کی تہہ تک پہنچتی ہے۔ اس آخری اور گہرے زون میں سورج کی روشنی بالکل نہیں پہنچتی ہے۔ اس میں زبردست اندھیرا ہوتا ہے۔  اس آخری زون میں بے حد ٹھنڈک  کی وجہ سے برف کی تہہ جمی رہتی ہے۔ اس زون  میں پانی کا پریشر بھی بے حد ہوتا ہے۔ ایسے جانور جو بہت بڑے ، طاقتور ، اور وزنی ہوتے ہیں اس زون میں پائے جاتے ہیں۔ یہ زون در حقیقت تین اندھیروں کے نیچے ہوتا ہے۔ اور ایسا اندھیرا ہوتا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ نظر نہیں آسکتا ہے۔سمندر کے اندر کی یہ تاریکی غالباً کائنات کی تمام تاریکیوں میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں روشنی کی معمولی سے معمولی کرن کا بھی گزر ممکن نہیں ہوتا ہے۔ تاریکی کی اس کیفیت کو قرآن کریم میں اس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے۔سورہ النور 24 ، آیت نمبر 40 ’’یا جیسے اندھیرے گہرے دریا میں چڑھتی آتی ہے۔ اس پر ایک لہر اس کے اوپر ایک لہر  اس کے اوپر بادل ایک پر ایک اندھیرے ہیں‘‘۔اہم بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے ارشاد گرامی کے مطابق صرف گہرے سمندر میں ہی یہ تین زون ہوتے ہیں۔ اس تاریکی کے بارے میں انیسویں صدی سے قبل کسی کو سمندر کی اس کیفیت کا پتہ نہیں تھا۔ جب اٹھارہویں صدی کے آخیر اور انیسویں صدی کے شروع میں نئے نئے سائنسی انکشافات ہوئے تو ان اندھیروں  اور تاریکیوں کے بارے میں پتہ چلا جب کہ یہ حالت قرآن کریم  کے ذریعہ ساڑھے چودہ سو سال قبل عرب کے بدوئوں کے سامنے آچکی تھی۔ سائنس کی تاریخ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نئے نئے آلات ایجاد ہوئے اور سمندر کی گہرائی کے ناپنے کا موقع ملا جس کے ذریعہ روشنی پانی کے اندر داخل کی جاتی ہے اور اس کی گہرائی کا پتہ لگا یا جاتا ہے اس آلہ کو Secchi Disk  کہتے ہیں۔ یہ ایک سفید آلہ ہے جسے سمندر کے اندر پہنچا کر سمندر کی گہرائی ناپ لیتے ہیں۔ لیکن خود اس آلہ کو سمندر کے اندر ننگی آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس آلہ کو 1930 کے بعد الیکٹرولائٹیک سیل کے ذریعہ استعمال میں لاکر خاطر خواہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔اب سائنس اور بھی نئی تحقیق کرکے سمندر کے دیگر رموز کو آشکار کرنے میں سرگرداں ہے۔ ان رموز کا ذکر قرآن کریم میں پہلے سے موجودہے ۔ پروفیسر درگا پرساد رائو  علم البحر کے بین الاقوامی ماہر ہیں۔ یہ کنگ عبد العزیز یونیورسٹی جدہ میں پروفیسر رہے ہیں۔ اس آیت کے متعلق پروفیسر درگا پرساد رائو نے کہا تھا کہ سائنس داں جدید آلات کے ذریعہ اب یہ جاننے میں کامیاب  ہوئے ہیں کہ سمندر کے اندر نیچے گہرائی میں بالکل اندھیرا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انسان کسی چیز کی مدد کے بغیر 20 سے 30 میٹر تک پانی کے اندر غوطہ لگا سکتا ہے، مگر گہرے سمندر میں 200 میٹر سے زیادہ گہرائی میں وہ زندہ بھی نہیں رہ سکتا  ہے ، مگر اس آیت کا اطلاق تمام سمندروں پر نہیں ہوتا ہے ، کیونکہ اس طرح کے اندھیروں کو ہر سمندر میں نہیں پایا جاسکتا ہے کہ اندھیرے کی تہہ کے اوپر دوسرے اندھیرے کی تہہ ہو۔ بلکہ یہ آیت خصوصیت کے ساتھ صرف گہرے سمندروں کی تاریکی کے بارے میں بتاتی ہے ، جیسا کہ قرآن کریم میں یہ ارشاد ہوا بلکہ ’’ ایک بڑے گہرے سمندر میں اندھیرا‘‘ گہرے سمندر میں اندھیرے کے پیدا ہونے کی دو اہم وجہیںہیں۔
(1 ) ہم سب جانتے ہیں کہ روشنی کی شعاع سات رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ بات ’’ قوس قزح‘‘ میں صاف نظر آتی ہے۔ یہ سات رنگی مجموعہ بنفشی،نیلا، آسمانی، سبز، زرد، نارنجی اور سرخ ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب روشنی کی شعاع پانی سے ٹکراتی ہے تو عمل  ’’ انعطاف‘‘ کے نتیجے میں مڑ جاتی ہے اور اس عمل سے روشنی کے سرخ رنگ کو پانی 10سے 15 میٹر کی گہرائی تک جذب کر لیتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی غوطہ خور پانی میں 25  میٹر کی گہرائی  پر زخمی ہوجائے اور اس کے زخم سے خون بہنے لگے تو وہ زخمی آدمی اپنے خون کو بھی  25 میٹر کی گہرائی پر نہیں دیکھ سکتا ہے کیونکہ اس گہرائی تک شعاع کا سرخ رنگ نہیں پہنچتا ہے۔ اسی طرح  نارنجی رنگ  کی شعاع 30 سے 50 میٹر کی سمندری گہرائی میں بالکل جذب ہوجاتی ہے ۔ زرد رنگ 50 سے 100  میٹر کی گہرائی میں جبکہ سبز رنگ 100 میٹر سے 200 میٹر کی گہرائی تک اور آسمانی رنگ  لگ بھگ 200 میٹر تک جبکہ نیلا اور بنفشی  رنگ 200 میٹر سے زیادہ گہرائی پر جذب ہوجاتے ہیں۔لہٰذا جس طرح مختلف  رنگ ایک ایک کرکے نہایت کامیابی کے ساتھ  غائب ہوجاتے ہیں اسی طرح تاریکی بھی تہہ بہ تہہ بڑھتی جاتی ہے یعنی تاریکی جیسے جیسے روشنی غائب ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے بڑھتی جاتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ  1000 میٹر کی گہرائی میں بالکل اندھیرا چھا جاتا ہے۔
(2 )  دوسری وجہ اندھیرا ہونے کی یہ ہے کہ سورج کی شعاعیں جب بادلوں سے ٹکراتی ہیں تو کچھ روشنی اس میں جذب ہوجاتی  ہے اور باقی روشنی منتشر شعاعوں میں بدل جاتی ہے جس کے سبب بادلوں کے نیچے اندھیرے کی ایک تہہ بن جاتی ہے۔ یہ اندھیرے کی پہلی تہہ ہے  پھر جب روشنی کی شعاعیں سطح سمندر سے ٹکراتی ہیں تو سطحی موجیں ان کے کچھ حصے کو منعکس کردیتی ہیں اور کچھ حصہ سمندر کے اندر نفوذ کر جاتا ہے، چنانچہ یہ موجیں ہی ہیں جو روشنی کو منعکس کرتی ہیں جس کے نتیجہ میں سمندر کے دو حصے ہوجاتے ہیں۔(1 ) سمندر کا سطحی حصہ (2 ) سمندر کا اندرونی گہرا حصہ۔ سطحی حصہ تو روشنی اور گرمی کی وجہ سے جبکہ گہرا حصہ اندھیرے کی وجہ سے  صاف نظر آنے لگتا ہے یا پہچانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور فرق ان دونوں حصوں میں موجوں کی وجہ سے بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ اندرونی موجیں دریائوں اور سمندروں  کے گہرے پانی کو ڈھانپے ہوتی ہیں۔ اس لئے کہ گہرے پانی کی کثافت ، اس کے اوپر موجود پانی کی کثافت سے زیادہ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اندرونی موجوں کے نیچے اندھیرا ہوتا ہے۔یہاں تک کہ مچھلی بھی سمندر کی گہرائی میں دیکھنے کے قابل نہیں رہتی ہے اور اس کے اپنے جسم  سے حاصل ہونے والی روشنی ہی اس کے لئے واحد ذریعہ ہوتی ہے۔
پروفیسر درگا رائو کا حتمی طور پر یہ کہنا ہے کہ ساڑھے چودہ سو سال قبل یہ ناممکن تھا  کہ ایک عام آدمی اس حیرت انگیز عمل کو اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کرسکے ۔اس لئے  ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سمندر کے اندر کی تاریکی کا اس طرح ذکر ثبوت کے ساتھ کرنا صرف کسی مافوق الفطرت  کے ہی بس کی بات ہے۔ عام انسان کی نہیں۔ اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور اس  کائنات کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے، جس نے قرآن کریم کے ذریعہ ایسے ایسے رموز  آشکار کیا ہے جو اللہ کی خلّاقی  کے مظاہر ہیں۔g

بچوں کی پرورش مرحلہ وار ماں کے پیٹ میں

وصی احمد نعمانی 
جدید سائنسی تحقیق کے مطابق بچہ چھ ماہ کے بعد جنم لے سکتا ہے اور پوری طرح صحت مند رہ سکتا ہے اور اپنی پوری زندگی عام بچوں کی طرح گزار سکتا ہے۔ اگلے چھ ماہ کے بعد 3 ماہ تک  بچہ بڑھتا رہتا ہے اور صحت مند ہوتا رہتا ہے۔ 24 ہفتہ کا یعنی چھ ماہ کا بچہ اپنی  زبان باہر نکالتا ہے۔اسے کسی تیز مہک کا پتہ چلنے لگتا ہے۔ ماں کے پیٹ میں بہت  اندھیرا ہوتا ہے کیونکہ پیٹ کے تین تاریک اندھیروں میں  اس کی پرورش ہوتی ہے۔یہ بات سورہ الزمر چیپٹر نمبر 23 آیت نمبر 6 میں بتا دی گئی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنین کا ارتقا ماں کے پیٹ کے اندر تین تاریک پردوں والے رحم میں ہوتا ہے یا تین پردوں والی مشیمہ جھلی (SAC )میں ہوتا ہے   جس میں وہ لپٹا رہتا ہے۔سائنسی تحقیق قرآن کریم میں مذکور تین اندھیروں سے بالکل مطابقت رکھتی ہے۔ کچھ بچوں کی آنکھیں ماں کے پیٹ میں 18 ہفتہ کے بعد پہلی بار کھلتی ہیں۔مگر اندھیرے کی وجہ سے نظر نہیں آتا ہے۔ اس طرح دوسرے تین ماہ یعنی تیسرے مہینہ سے چھٹے مہینہ کی مدت میں بچہ کا پوری طرح نشو و نما ہوجاتا ہے۔ سبھی اعضاء جس میں سننے کی طاقت شامل ہے، یہ سب سے پہلے پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح بچہ سب سے پہلے  ماں کے پیٹ میں  پہلے پہل جو آواز سنتا ہے وہ اس کی اپنی ماں کی ’’ ڈکار‘‘یا ’’ ہچکی‘‘ ہوتی ہے۔ اسی طرح کھانا کھانے یا چبانے کی آواز  بھی بچہ کو پہلے سنائی دیتی ہے۔ چونکہ بچے کو ماں کی آواز پہلے پہل سنائی دیتی ہے اور پیدا ہونے تک بے شمار بار ایسا  ہوتا ہے ۔ اس لئے  اپنی ماں کی آواز سے آشنا ہوجانے کی وجہ سے اس کا لگائو قدرتی طور پر ماں سے زیادہ ہوجاتا ہے۔ الٹراسائونڈ کے وقت پیٹ میں ماں کے ایمونیٹک عرق کی موجودگی کی وجہ سے ایک خاص ترنگ یا لہر پیدا ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے بچہ کو آوازخوب سنائی دیتی ہے۔ ’’ لوب‘‘ کو کان  کے پاس لگانے سے آواز زیادہ صاف سنائی دیتی ہے۔26 ہفتہ کے بعد بچہ ماں کے پیٹ میں اپنا 90 فیصد وقت سونے میں گزارتا ہے ۔ لگ بھگ آدھا کلو ایمونٹک عرق بچہ ماں کے پیٹ میں پی لیتا ہے اور پیٹ میں ہی انگوٹھا چوسنے کی شروعات کردیتا ہے۔ بچہ کا پھیپھڑا سب سے اخیر میں نشوو نما کے مراحل سے گزرتا ہے۔بچہ کے دل کی حرکت ماں کے دل کی حرکت سے دوگنی ہوتی ہے۔ اس حرکت کو ماں کے پیٹ پر کان لگا کر سن سکتے ہیں۔ اگر بچہ ماں کے پیٹ میں پریشان  ہے تو اس کے دل کی حرکت بڑھے گی ورنہ کم رہے گی۔ماں کے تنائو یا خوشی کا اثر بچہ تک ’’ پلے سنٹا‘‘ کے ذریعہ یا ’’ نال‘‘ کے ذریعہ پہنچتا ہے۔ اگر ماں دوران حمل زیادہ پریشانی سے گزرتی ہے تو بچہ کی زندگی پر اس کا منفی اثر اس حد تک بڑھ سکتا ہے کہ اسے دل کی بیماری تک پیدا ہوسکتی ہے۔ اس طرح  بچہ چھ ماہ کے بعد پیدا ہو یا 9  ماہ کی مدت پوری کر لینے کے بعد، مگر تمام  بچوں کے تمام اعضاء تین ماہ کی مدت میں پیدا ہوجاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ گیارہ سے بارہ ہفتہ میں بچہ  ماں کے پیٹ میں حرکت بھی کرنے لگتا ہے۔ اس طرح رحم میں بچہ  پوری طرح چلنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔یہ شروع کے تین مہینہ ماں کے لئے بے حد اہم ہوتے ہیں کیونکہ اسی شروع کے تین ماہ میں اسقاط حمل کا خدشہ زیادہ رہتا ہے۔تین ماہ کے بعد ہی لڑکا یا لڑکی ہونے کا پتہ لگانا ممکن ہوتا ہے ۔ چار ماہ میں بچہ لگ بھگ 14 سینٹی میٹر کی لمبائی  کا ہوجاتاہے ۔ اس کا ہاتھ، پیر سے پہلے ترقی کرتا ہے۔ 16 ہفتہ میں بچہ اپنے ہاتھ پیر کلائی اور گھٹنہ کو چلا کر حرکت کرنے لگتا ہے اور اسے آس پاس کے ماحول کا احساس بھی ہونے لگ جاتا ہے۔ 18 ہفتہ کے بعد اس کا نظام ہاضمہ عمل کرنے لگتا ہے ۔ نال لگ بھگ 1/2 میٹر لمبا ہوجاتا ہے۔
ماں کے پیٹ میں سائنسی تحقیق کے مطابق اگر بچوں کو اچھی موسیقی ایک خاص مدت تک  سنائی جائے تو بچہ اسے سن کر اس کا عادی ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر بار بار ایک ہی سنگیت سنائی جائے تو اسے وہ یاد بھی کرلیتا ہے۔ سائنس نے ایک تجربہ کرکے یہ ثابت کیا کہ حمل کے دوران ایک بچہ کو ایک ہی سنگیت بار بار سنائی گئی ۔جب وہ پیدا ہوا تو اسے ان بچوں کے ساتھ کردیا گیا جن کو ماں کے پیٹ میں رہنے کی مدت میں سنگیت یا موسیقی نہیں سنائی گئی تھی۔ دونوں  طرح  کے بچوں کے سامنے وہی موسیقی  پیش کی جاتی تھی تو جس  بچے نے ماں کے پیٹ کی مدت میں اسے بار بار سن رکھا تھا اس کا فوراً موسیقی پر رد عمل ہوتا تھا۔جبکہ دوسرے بچہ پر اس کا رد عمل بالکل نہیں ہوتا تھا۔ اس سے سائنس نے اس بات کو ثابت کیا کہ بچوں کی قوت سماعت سب سے پہلے اور ماں کے پیٹ میں ہی پیدا ہوتی ہے ۔ سورہ ملک چیپٹر نمبر 67  میں آیت نمبر 23  میں دیکھنے کی طاقت سے قبل ہی سننے کی طاقت پیدا ہوتی ہے ۔ اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ پہلے کان کا ذکر ہوا ہے ۔اس کے بعد آنکھوں کا اور پھر دل کا  ’’اور کہو کہ وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا اور تمہارے کان اور آنکھ اور دل بنائے تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو‘‘
بچوں کی پیدائش کے وقت ماں کے پیٹ اور کمر میں درد ہوتا ہے اور بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ پیٹ میں کم جگہ ہونے کی وجہ سے 25 فیصد آکسیجن زیادہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کمی کی وجہ سے بھی ماں کی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ چھٹ پٹاہٹ ہوتی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی پر درد بڑھ جاتا ہے ۔ اس مرحلہ میں بچہ کے دماغ میں 100 ارب ’’یوران‘‘ یا ٹشوز کا نشو و نما ہوجاتاہے۔ مگر ماں کے پیٹ میں دستیاب ذرائع کی کمی ہونے لگتی ہے اور بچہ کی پیدائش  کی پیش گوئی ہونے لگتی ہے۔ مگر مطالعہ کے مطابق صرف 5 فیصد بچے ہی بتائے گئے وقت کے مطابق پیدا ہوتے ہیں۔کیونکہ صحیح اندازہ پیش کرنا سو فیصد ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ صرف AM UNATIC  تھیلے کے پھٹنے اور رحم میں کھینچائو پیدا ہونے سے  ہی پتہ چلتا ہے کہ بچہ کی پیدائش کا وقت قریب آگیا ہے اور پیدائش کے تمام اعضاء قدرتی طور پر کام کرنے لگ جاتے ہیں۔بچہ کو رحم اور عضو خاص کے درمیان ایک اہم راستہ  طے کرنا ہوتا ہے  ’’ پلے سنٹا‘‘  ’نال‘‘ باہر نکل آتا ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں 13 کروڑ مائیں بچوں کو جنم دیتی ہیں ۔ پیدا ہوتے ہی بچے کے تمام اعضاء کام کرنے لگتے  ہیں مگر نظام ہاضمہ سے متعلق ہر اعضاء ابھی اچھی طرح کام شروع نہیں کرتے ہیں۔ اسے اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے ایسی حالت میں چھ ماہ کی مدت تک بچہ کو ہر گز ہرگز ماں کے دودھ کے علاوہ باہر کی کوئی چیز نہیں دی جانی چاہئے اور سائنسی تحقیق کے مطابق قرآن کریم کے فرمان کی روشنی میں دو سال تک دودھ ماں کا پلانا چاہئے جیسا کہ سورہ البقرہ آیت نمبر 233 میں فرمان الٰہی ہے ’’جو والدین چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد پوری مدت رضاعت کا دودھ پئے تو مائیں اپنے بچوں کو کامل  دو سال دودھ پلائیں‘‘۔    g

ہر لمحہ اعمال نامہ کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے

وصی احمد نعمانی
قرآن کے بے شمار معجزات اور سائنسی کمالات پر قاری کی نگاہِ دوربیں مرکوز ہیں ۔ ہر ذی روح خاص کر انسان اپنی پوری زندگی میں جو کچھ کرتا ہے ، ان سب کی ریکارڈنگ زمین و آسمان میں قرآن کریم کے فرمان کے مطابق ہوتی رہتی ہے۔ان باتوں کو جدید ترین سائنسی تحقیق نے بھی ثابت کردیا ہے۔ عقل و خرد حیران ہے کہ یہ سب کچھ ہر لمحہ کیسے پوری صحت اور سچائی کے ساتھ ہورہا ہے۔اللہ کی کتاب کے مطابق انسان جو کچھ بولتا ہے ، اس کی آواز بھی ہو بہو ریکارڈ ہوجاتی ہیں۔ اس کی پوری شکل و صورت بھی فوٹو کے ذریعہ ریکارڈ ہورہی ہے یہاں تک کہ انسانوں کے قدموں کے نشانات تک ریکارڈ کرلئے جاتے ہیں۔
 اللہ اپنی کتاب میں انسان کی انگلیوں کے نشانات اور قدموں کے نشانات کو اس آدمی کی شناخت کا مکمل ثبوت فرمایا ہے۔ جس کے ذریعہ روزِ حشر انسان اپنے کئے ہوئے گناہوں کو پہچان کر اپنی شناخت کو قبول کرلے گا اور اپنے جرم کا اقبال کرلے گا۔ اس اہم اور نہایت مخصوص مضمون میں قرآن کریم کی آیتوں کا حوالہ اور سائنسی حقائق پر مبنی ثبوت پیش کرکے قاری حضرات سے درخواست کی جاتی ہے کہ قرآن کریم کو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ضرور پڑھیں تاکہ خدا کی کرشمہ سازیوں کا بھرپور یقین ہوسکے اور سائنسی کمالات  کے ذریعہ اس آسمانی کتاب کو زیادہ اچھی طرح سمجھنے میں آسانی پیدا ہوسکے ۔
سائنسی جدید ترین تحقیق نے تو یہاں تک  ثابت کردیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ قدموں کے نشانات  ریکارڈ ہوتے ہیں بلکہ ہر ایک انسان کے قدموں کے نشانات دوسرے کسی بھی انسان کے قدم کے نشان سے بالکل اس طرح الگ اور منفرد ہوتے ہیں جیسے انگوٹھوں کے نشانات۔ یعنی جس طرح ایک انسان کے انگوٹھے کا نشان دوسرے انسان کے انگوٹھے کے نشان سے نہیں ملتا ہے اسی طرح ایک انسان کے پائوں کے نشان دوسرے کسی انسان کے پائوں کے نشان سے نہیں مل سکتے ہیں۔ اللہ اپنی کتاب میں انسان کی انگلیوں کے نشانات اور قدموں کے نشانات کو اس آدمی کی شناخت کا مکمل ثبوت فرمایا ہے۔ جس کے ذریعہ روزِ حشر انسان اپنے کئے ہوئے گناہوں کو پہچان کر اپنی شناخت کو قبول کرلے گا اور اپنے جرم کا اقبال کرلے گا۔ اس اہم اور نہایت مخصوص مضمون میں قرآن کریم کی آیتوں کا حوالہ اور سائنسی حقائق پر مبنی ثبوت پیش کرکے قاری حضرات سے درخواست کی جاتی ہے کہ قرآن کریم کو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ضرور پڑھیں تاکہ خدا کی کرشمہ سازیوں کا بھرپور یقین ہوسکے اور سائنسی کمالات  کے ذریعہ اس آسمانی کتاب کو زیادہ اچھی طرح سمجھنے میں آسانی پیدا ہوسکے ۔ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ’’روز حشر ہر ایک انسان کے ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ پیش کردیا جائے گا۔ اس اعمال نامہ میں وہ سب کچھ درج ہوگا، جو کچھ بھی وہ انسان دنیا میں کرتا تھا اور کہتا تھا۔یہاں تک کہ اس کے قدموں کے نشان تک کے ثبوت موجود ہوں گے۔ اس طرح اس مضمون میں تین خاص باتوں پر تذکرہ ہوگا  ’’اس کی ہو بہو تصویریں اس زمین و آسمان میں اس کے تمام حرکات و سکنات کی کھینچی جاتی رہتی ہیں جو کچھ بھی وہ کرتا ہے‘‘۔ ’’ اس انسان کے قدموں کے نشانات تک ریکارڈ کئے جاتے رہتے ہیں وہ جہاں جہاں بھی جاتا آتا رہتا ہے‘‘۔پہلے ہم قرآن اور حدیث کے حوالے پیش کریں گے پھر اس کے بعد سائنسی تحقیق جو مذکورہ بالا تمام حقائق کی تصدیق کرکے سائنسداں انسانی خدمات انجام دے کر خدا کے حکم کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں، حالانکہ ان کا مقصد عام حالات میں قرآنی حقائق کو درست ثابت کرنا  نہیں ہوتا ہے۔وہ تو ان حقائق سے بے خبر اپنی زندگی کھپا ڈالتے ہیں کسی نئی بات کو ثابت کرنے کے لئے۔مگر یہ تو قرآن کا اعجاز ہے کہ آخر وہ باتیں جو حتمی طور پر بین الآفاقی پیمانہ پر درست اور خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتی رہتی ہیں ، وہ درست نتائج سائنسدانوں کی تحقیق میں خدا کے حکم سے شامل ہوجاتی ہیں۔کیونکہ اللہ سورہ علق میں ارشاد فرماتا ہے ’’ ہم نے انسان کو وہ سکھایا جسیوہ جانتا نہیں تھا۔ہر علم کا مالک خدا ہے۔ہر علم کو آشکار بھی وہی کرتا ہے۔ یہ تو سائنس دانوں کی خوش بختی ہے کہ وہ ان راز کو جان لیتے ہیں ، جسے صرف خدا جانتا ہے یا اس کے حبیب کو خدا کی جانب سے اطلاع ہوتی ہے۔ آئیے ہم پہلے قرآنی حوالہ جات کو ذہن میں محفوظ کرلیں پھر اس کی سائنسی عرق ریزی پر غور کریں گے ۔ مدعاء اس مضمون کا ہے ’’ جو کچھ بھی انسان کہتا ، بولتا ، کرتا ، یہاں تک کہ جہاں کہیں بھی آتا جاتا ہے وہ سب کچھ ریکارڈ  ہوتے رہتے ہیں خود بخود‘‘۔یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے۔ ان باتوں کی تصدیق سائنس بھی کرتی ہے۔ قرآن میں تو ان کے صاف حوالے موجود ہیں یعنی انسان کو کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے ، کہہ رہا ہے، اس کی نگرانی بھی ہوتی ہے اور وہ ہو بہو ریکارڈ بھی ہورہی ہے ، اس کا فوٹو بھی ۔ سورہ یٰس چیپٹر نمبر36 آیت نمبر 12 میں اللہ کا فرمان ہے ’’ یقینا ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھ رہے ہیں جو انہوں نے آگے بھیجا  اور جو انہوں نے پیچھے چھوڑا اور ہر چیز ہم نے درج کر لی ہے ایک کھلی کتاب میں ‘‘۔اس آیت کی تفسیر میں تذکیر القرآن صفحہ نمبر 1210 پر حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب نے کچھ اس طرح فرمایا ’’ جدید تحقیقات نے بتایا  ہے کہ انسان اپنے منہ سے جو آواز نکالتا ہے وہ نقوش کی صورت میں فضا میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح انسان جو عمل کرتا ہے اس کا عکس بھی حرارتی لہروں کی شکل میں مستقل طور پر دنیا میں موجود ہوتا ہے۔ گویا اس دنیا میں ہر آدمی کی ویڈیو ریکارڈنگ ہورہی ہے۔ یہ تجربہ بتا تا ہے کہ اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ انسان کے علم کے بغیر اور اس کے ارادہ سے آزاد اس کا قول اور عمل مکمل طور پر محفوظ کیا جارہا ہو اور کسی بھی لمحہ اس کو دہرا یا جا سکے، یہی بات سائنس ثابت کرتی ہے کہ یہ سب کچھ دہرایا جا سکتا ہے بلکہ دہرایا جاتا ہے جیسے D VCC.P وغیرہ۔بلکہ سائنس نے تو یہ ثابت کرکے دکھایا کہ ریکارڈ بھی ہورہا ہے، فوٹو بھی کھینچا جارہا ہے۔ایک دوسری آیت میں قرآن کریم میں ارشاد ہے ’’یہ تمہارا بہی کھاتہ ہے جو تم پر سچ سچ بیان کرتا ہے ۔ بے شک ہم اس کو ریکارڈ کر لیا کرتے تھے جو کچھ تم کرتے تھے‘‘۔جناب حافظ صلاح الدین ؒ اورحضرت مولانا عبد الجبار ؒ نے سورہ یس کی آیت نمبر12 کا ترجمہ اس طرح کیا ہے ’’ بلا شبہ ہم ہی زندہ کرتے ہیں مردوں کو اور ہم لکھتے ہیں اسے جو (عمل ) وہ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے آثار (نشان قدم) بھی اور ہر چیز ہم نے محفوظ کر رکھا ہے اس کو ایک واضح کتاب میں ‘‘۔وہ واضح کتاب کیا ہے اس کو سمجھنا ہے۔ حضرت مولانا محمد جونا گڑھی اور حضرت مولانا صلاح  الدین یوسف  صاحب نے اپنی تفسیر میں ’’ آثارھم‘‘  کا دوسرا مطلب نشانات قدم سے لیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’ انسان نیکی یا بدی کے لئے جو سفر کرتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو قدموں کے یہ نشانات بھی لکھے جاتے ہیں۔ جیسے عہد رسالت میں مسجد نبوی کے قریب کچھ جگہ خالی تھی تو  قبیلہ بنو سلمہ نے ادھر منتقل ہونے کا ارادہ کیا، جب نبی ﷺ  کے علم میں یہ بات آئی تو آپ ؐ نے انہیں مسجد کے قریب منتقل ہونے سے روک دیا اور فرمایا دوبار ’’ تمہارے گھر اگرچہ دور ہیں ، لیکن وہیں رہو ، جتنے قدم تم چل کر آتے ہو وہ لکھ لیے جاتے ہیں۔اسی طرح حضرت مولانا شیخ الہند  محمود حسن صاحب اور شیخ الاسلام  مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب کی تشریح  کے مطابق ’’ نیک و بد اعمال جو آگے بھیج چکے اور بعض اعمال کے اچھے یا برے اثرات یا نشان  پیچھے چھوڑے۔ مثلاً کوئی کتاب تصنیف کی یا علم سکھلایا  یا عمارت بنائی یا کوئی رسم ڈالی نیک یا بد، سب اس میں داخل ہیں بلکہ الفاظ کے عموم میں وہ نشانات  قدم بھی شامل ہوسکتے ہیں جو کسی عبادت کے لئے چلتے وقت زمین پر پڑ جاتے ہیں۔یعنی بعض احادیث صحیحہ کے مطابق ’’ جس طرح تمام اعمال و آثار وقوع کے بعد ضابطہ کے موافق لکھے جاتے ہیں ، قبل از وقوع بھی ایک ایک چیزلوح محفوظ میں لکھ دی جاتی ہے اور وہ لکھنا بھی محض انتظامی ضوابط و مصالح کی بنیاد پر ہے ورنہ اللہ کے علم قدیم میں ہر چھوٹی بڑی چیز پہلے سے موجود ہے ،اسی کے موافق لوح محفوظ میں نقل کی جاتی ہے۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے ’’ تفہیم القرآن ‘‘ میں کچھ اس طرح تشریح کی ہے ’’ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا نامہ اعمال تین قسم کے اندراجات پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی اچھا یا برا عمل کرتا ہے وہ اللہ کے دفتر میں لکھ لیا جاتا ہے ۔دوسرے  اپنے گرد و پیش کی اشیاء اور خود اپنے جسم کے اعضاء پر جو نقوش(Impression) بھی انسان مرتسم کرتا ہے وہ سب کے سب ثبت ہوجاتے ہیں ۔تیسرے مرنے کے بعد اپنی آئندہ نسل پر، اپنے معاشرے پر اور پوری انسانیت پر اپنے اچھے اور برے اعمال کے جو اثرات وہ چھوڑ گیاہے وہ جس وقت تک اور جہاں تک کار آمد رہیں گے وہ سب اس کے حساب میں لکھے جاتے رہیں گے‘‘اللہ تعالیٰ انسان کے انہیں اعمال کی بنیاد پر جو کچھ بھی لکھواتا یا ریکارڈ کراتا جارہا ہے۔وہ سب کے سب روز حشر ان کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ فرماتا  ہے ’’ جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے اور جب آسمان کا پردہ ہٹایا جائے گا اور جہنم دہکا دی جائے گی اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی، اس وقت ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کر آیاہے؟یعنی دنیا میں ریکارڈ کئے گئے ثبوت پیش کردیے جائیں گے۔ سورہ انفطار میں ہے ’’ جب قبریں کھول دی جائیں گی اس وقت ہر شخص کو اس کا اگلا پچھلا سب کیا دھرا معلوم ہوجائے گا‘‘اس کا جواب خود قرآن کریم دیتا ہے ’’ اس روز( قیامت کے روز) وہ (زمین) اپنے حالات بیان کرے گی کیونکہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہے ‘‘اگر چند جملوں کو جوڑ کر پڑھیں جیسے ’’ جب اعمال نامے کھولے جائیں گے‘‘ یا ’’ ہر شخص کو اگلا پچھلا‘‘ سب کیا دھرا معلوم ہوجائے گا‘‘ یا پھر ’’ زمین اپنے اوپر گزرے تمام حالات کو بیان کرے گی‘‘ تو ذہن میں یہ خیال قدرتی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار یہ کیسے؟یہ سب کچھ خود بخود کیسے ہوتا چلا جائے گا۔ اس کا جواب بھی قرآن کریم خود دیتا ہے۔ سورہ انفطار میں کہا گیا ’’ ہرگز نہیں بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ ) تم لوگ جزا اور سزا کو جھٹلاتے ہو حالانکہ تم پر نگراں مقرر ہیں۔ ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں‘‘ ۔سورہ  ق میں ہے کہ اللہ کے حبیب کے ذریعہ یہ بات آشکا ر ہوئیہے کہ ’’ زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ نکالتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ہمارے (اللہ) پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے‘‘ ۔سورۃ  الطارق میں کہا گیا ’’ قسم ہے آسمان اور رات کو نمودار ہونے والے کی، اور تم کیا جانو کہ وہ رات کو نمودار ہونے والا کیا ہے؟چمکتا ہوا تارا۔ کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کے اوپر کوئی نگہبان (ستارہ)نہ ہو‘‘غالباً یہی نگہبان خدا کے حکم سے سب کچھ ریکارڈ کرتا ہے ۔ مذکورہ بالا تمام آیتوں کی سچائی کی تصدیق اور توثیق جدید سائنسی تحقیقات کرہی ہیں ۔