Saturday, 28 March 2015

سائنس کا صحیح استعمال خدا کے قریب کرتا ہے

وصی احمد نعمانی
……..گزشتہ سے پیوستہ
جب ہم سونامی، زلزلہ، آتش فشاں، آسمان سے برف کی شکل میں پتھروں کی بارش کو ذہن میں رکھ کر جاپان کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں اور قرآنی آیات کی روشنی میں ان سب کا تجزیہ کرتے ہیں تو بے ساختہ زبان سے نکلتا ہے کہ دنیا چاہے جس قدر طاقتور ہونے کا دعویٰ کرے، مگر اللہ کی مرضی اور حکم کے سامنے سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بکھر جاتے ہیں، حکومت صرف خدا کی ہے۔ اس لیے قانون صرف اسی کا چلتا ہے۔ سائنس اور تمام علوم اسی کی نشانیاں ہیں۔
جاپان نے 1952 میں ہی اس بات کا اعلان کردیا تھا کہ اسے سونامی اور زلزلہ جیسی آفات کے سلسلہ میں پختہ انتظام کی صلاحیت پر ناز ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ سونامی کے سلسلہ میں بہت جلدی سے یعنی ٹھیک وقت پر اپنے شہریوں کو خبردار کرنے کے نظام پر بجا طور پر فخر ہے۔ یعنی جاپان اپنی سائنس و ٹکنالوجی کی مہارت کی وجہ سے قبل از وقت خطرے کا اعلان کر کے اپنے شہریوں کی زندگی اور املاک کو بچا سکتا ہے۔ چنانچہ کہا یہ جاتا تھا کہ اگر زلزلہ کی شدت رجسٹرڈ اسکیل پر 7 سے 8 ہو تو جاپان کی عمارتیں اپنی کپکپاہٹ اور تھرتھراہٹ کو جھیل سکتی ہیں، کیوں کہ اس نے اس پر عبور حاصل کرلیا ہے۔ کئی میٹر کی سونامی لہر تک کو جاپان برداشت کرسکتا ہے۔ جاپان میں 140 سال کی مدت میں آئے زلزلوں، آتش فشاں پہاڑوں سے آگ اگلنے اور سونامی کی تباہیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔ اس کے حساب سے 140 سال کی مدت میں رجسٹرڈ اسکیل پر 9 کی شدت یا 8.9 کی شدت کا زلزلہ نہیں آیا تھا، مگر اس بار گیارہ مارچ 2011 کو گزشتہ 140 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ اب کی بار تو 80 سے زیادہ قصبوں میں آگ لگ گئی۔ سڑکیں دھنس گئیں، کاریں، بسیں یہاں تک کہ ٹرینیں تنکوں کی طرح سونامی میں تیرنے لگ گئیں اور اللہ کی جانب سے حکومت جاپان کو یہ ہدایت جاری کردی گئی کہ کوئی چاہے جس قدر طاقت ور ہونے کا دعویٰ کرے، سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں اپنی ناخدائی کا اعلان کردے، مگر اللہ کی سلطنت میں صرف اس کی حکومت چلتی ہے، کیوں کہ زمین و آسمان اور سب کچھ خدا کا ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی سب اس کی قدرت میں ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جاپان کا مورخہ گیارہ مارچ 2011 کا زلزلہ اتنا زبردست تھا کہ اس کے زور دار جھٹکے نے زمین کا جغرافیہ بدل دیا اور جاپان اپنی جگہ سے 8 فٹ کھسک گیا۔ سروے کے مطابق زلزلہ، ٹیک ٹانک شفٹ علاقہ اور شمالی امریکہ کی پلیٹوں کے درمیان ’’داب‘‘ میں توازن بگڑنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ یہ بات ثابت ہے کہ شمالی امریکی پلیٹ کو بحرالکاہل کی پلیٹ ہر سال 3.3 انچ کی تیزی سے دھکیلتی ہے، کیوں کہ زلزلہ ایسا جھٹکا لاسکتا ہے، جو پلیٹ کو آگے کھسکا سکتا ہے۔ سابقہ مضمون میں یہ بات آچکی ہے کہ زمین تقریباً 20 جگہوں سے پھٹی ہوئی اور اس کی دراڑیں تقریباً 47 کلو میٹر اندر تک گہری ہیں۔ یہ دراڑیں زلزلہ، آتش فشاں سونامی کے ذرائع ہیں۔
یہ بات دنیا جانتی ہے کہ جاپان دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں دوسرے نمبر پر گنا جاتا ہے۔ مگر جغرافیائی اعتبار سے جاپان زلزلہ کی پٹی پر واقع ہے اور چاروں طرف سے سینڈوچ کی طرح ہمیشہ دبتا رہتا ہے، اس کے مغرب کی جانب سے یوریشیا کی پٹی، مشرق کی جانب سے بحرالکاہل کی پٹی اور جنوب کی جانب سے فلپائن کی پٹی دباتی رہتی ہے۔ اسی لیے یہاں شدت کے زلزلے آتے رہتے ہیں اور ایسا ہمیشہ بلکہ اس سے زیادہ تباہیاں ہوتی رہیںگی، خدا وہاں کے باشندوں پر اپنا کرم کرے کہ وہ بھی اسی کے بندے ہیں۔ اس بار تو گاؤں کے گاؤں بہہ گئے۔ قصبے کے قصبے روئے زمین سے مٹ گئے جیسے کبھی ان کا نام و نشان نہیں تھا۔ کبھی کوئی وجود نہیں تھا۔ جاپان کی اقتصادی، مادی اور سائنسی ترقی کچھ کام نہیں آسکی، یہاں تک کہ دیگر پچاس ممالک نے گھبرا کر سونامی الرٹ جاری کردیا۔ روس، تائیوان، فلپائن، انڈونیشیا، پایوا، نیوگویانہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فجی، گوئٹامالا، میکسیکو، پنامہ وغیرہ میں خوف و دہشت کی وجہ سے سونامی کے نام سے کپکپانے لگے۔ دنیا اللہ کی عظمت جاہ و جلال کو یاد کرنے میں مشغول ہوگئی۔ صاحب ایمان نے دنیا کی سلامتی کی دعائیں مانگیں۔ جاپان کو تباہیوں سے بچانے کی اللہ سے درخواست کی۔ اس طرح ستمبر 1923 میں 7.9 کی شدت والے زلزلہ نے ٹوکیو میں تقریباً 40 ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ پھر 2004 میں بحرہند میں سونامی آنے سے 10 بلین (کھرب) کا نقصان ہوا تھا اور 1995 میں 100 بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ یہ ایسا خطرناک نام ہوگیا کہ سننے کے بعد ہی بدن میں جھرجھری پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی لہریں سمندر کے ساحل پر دکھائی دیتی ہیں۔ سمندر میں آتش فشاں پھٹنے سے بھی بھیانک سونامی پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی طرح زمین کھسکنے یا پلیٹوں کے ٹکرانے سے یا پھر پلیٹوں کے ایک دوسرے سے دور ہونے سے سونامی پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح کی لہریں 1800 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سمندر کے اندر دوڑتی ہیں۔ اس کی چوڑائی 750 کلومیٹر تک ہوسکتی ہے۔ لگاتار طاقتور لہریں ایک دوسرے پر چڑھا کرتی ہیں، تو اس کی رفتار میں شدت پیدا ہوتی جاتی ہے، جس سے اکثر پانی کی لہریں 30-40 میٹر تک اونچی اٹھ کر ایک دیوار سی بناتی ہیں۔ سونامی آنے کے قبل سمندر کے کناروں کا پانی اندر کی طرف کھنچ کر چلا جاتا ہے اور پھر یہ یکجا ہو کر پلٹ کر تباہی مچا دیتا ہے۔ 26 دسمبر 2004 میں جنوبی ہند مہاساگر میں ایسا ہی ہوا تھا، جب ہزاروں کلو میٹر دور سماترا کے نزدیک سمندر کے اندر زلزلہ پیدا ہوا تھا۔ سمندر کی گہرائی میں زیر زمین ہلچل کی وجہ سے یا پلیٹوں کے کھسکنے، چھچھلنے کی وجہ سے پانی کی سطح کے نیچے یا اوپر بائیں یا دائیں حرکت کی وجہ سے سونامی کی لہریں پیدا ہوتی ہیں، پانی کی سطح پر جب ہوا کے تھپیڑے ٹکراتے ہیں تو بہت تھوڑی توانائی کی چھوٹی چھوٹی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ ان لہروں کا اثر سمندر کی زیادہ گہرائی میں تو نہیں کے برابر ہوتا ہے۔ مگر جب بڑی بڑی چٹانیں ایک دوسرے کو دباتی ہیں یا کھسکتی اور پھسلتی ہیں تو سمندر کے اندر 30-40 میٹر کی لہریں پیدا ہوجاتی ہیں، لیکن سمندر میں رواں دواں پانی کے جہازوں کو ان کا پتہ تک نہیں چلتا ہے۔ جب تک کہ یہ رفتہ رفتہ سمندری ساحلوں کے قریب نہ پہنچ جائیں۔ ان زلزلوں کی وجہ سے 27 فروری 2010 کو ’’چلی‘‘ میں 8.8 کی شدت کا زلزلہ آیا۔ سیکڑوں عمارتیں زمیں بوس ہوگئیں، اس سے قبل 12 جنوری 2010 کو ’’ہیتی‘‘ میں 7 کی شدت کے زلزلہ نے تقریباً دو لاکھ انسانوں کو موت کے آغوش میں سلا دیا۔ ایک کروڑ سے زیادہ افراد بے گھر ہوگئے۔ آٹھ اکتوبر 2005 کو شمالی پاکستان کے شمالی علاقہ میں 7.8 کی شدت کے زلزلہ نے ایک لاکھ 9 ہزار لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ 26 دسمبر 2004 کو انڈونیشیا کے جزیرہ سماترا کے شمالی علاقہ میں 8.9 کی شدت کے زلزلہ کے نتیجہ میں پیدا شدہ سونامی نے 2 لاکھ پچیس ہزار لوگوں کو ہلاک کرڈالا۔ اس سے تھائی لینڈ، سری لنکا اور ہندوستان بھی بری طرح متاثر ہوا تھا۔ 26 ستمبر 2003 میں ایرانی شہر ’’بام‘‘ میں 6.7 کی شدت کے زلزلے نے 31 ہزار 884 آدمیوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ اسی طرح گجرات (ہندوستان) میں 26 جنوری 2001 میں 7.9 کی شدت کے زلزلہ نے 20 ہزار لوگوں کو ہلاک اور ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو زخمی اور بے گھر کردیا۔
جاپان میں زلزلہ آنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ مورخہ 28 مارچ 2011 کو صبح 7:24 بجے 6.5 کی شدت کے زلزلے نے پورے علاقہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ دوسری طرف ری ایکٹر ایک میں4000 ڈگری تک ٹمپریچر پہنچ گیا۔ سمندر میں تابکاری کے اثر نے لوگوں کو خوف زدہ کردیا ہے۔ پھر مورخہ 25 مارچ 2011 کو میانمار کے شمال مشرقی خطے میں تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب 6.8 کی شدت کا زلزلہ آیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ فوکو شیما ڈانچی کے قریب سمندر کے پانی میں ’’ریڈیو ایکٹیو آئیو ڈین‘‘ کی سطح زیادہ بلند پائی گئی۔ یعنی سمندری پانی میں قانونی حد سے ’’تین ہزار تین سو پچیس گنا زیادہ ریڈیو ایکٹیو آئیو ڈین پائی گئی ہے۔ جس کے نتیجہ میں بہت سے ملکوں نے اس ’’نیوکلیائی‘‘ تباہی سے سبق لے کر اس کے فروغ کے بارے میں دوبارہ سوچنا شروع کردیا ہے۔ یہ نیوکلیائی تباہی سابق سوویت یونین کے ’’چرنوبل‘‘ کے جوہری دھماکہ کی یاد دلاتی ہے۔ یہ ’’یوکرین‘‘ میں واقع ہے، جو 1986 میں پھٹ گیا تھا۔ اس کے بعد سب سے بڑا جوہری دھماکہ ’’فوکوشیما‘‘ میں ہوا ہے۔  جاپان کے ان واقعات نے ایسی تباہی مچائی کہ مہلوک کی لاش تک کی شناخت نہیں ہو پارہی ہے۔ ان کے سڑے ہوئے اور مخدوش ڈھانچوں کے قد، کاٹھی سے یا ان کے لباس اور دستاویزات جو ان لاشوں سے برآمد ہوئے ہیں کے ذریعہ صرف 1700 کی شناخت ہوسکی ہے، جب کہ مرنے والوں کی اور نامعلوم لاشوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اگر ہم ان واقعات کو صرف حادثات کے طور پر دیکھ کر خاموش ہوجائیںگے تو یہ ہماری بدنصیبی ہوگی اور اگر قرآنی آیات کی روشنی میں ان پر غور و خوض کریںگے تو یہی حادثات ہماری رہنمائی کا ذریعہ بنیںگے اور خدائے ذوالجلال کے اشاریہ کو سمجھ کر خود کو اس کے حوالے کردینے کی خوش نصیبی حاصل ہوگی۔ دنیا نے جاپان کے اس حادثہ سے عبرت حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی ہے، مگر نتیجہ درست نہیں نکال پا رہی ہے، کیوں کہ صرف سائنسی اور ٹکنالوجی کے ذریعہ حاصل کردہ نتائج کی بنیاد پر تجربہ کر رہی ہے۔ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ بس قیامت آنے ہی والی ہے۔ کچھ لوگوں نے تو تاریخ اور سال کا تعین بھی کردیا ہے، جو سراسر غلط ہے۔ یہاں بھی ہم کو صرف قرآن سے رہنمائی حاصل کرکے ان واقعات کو نصیحت اور ہدایت کا ذریعہ بنانا ہوگا، کیوں کہ قیامت کا علم صرف خدا کو ہے اور اس کا تذکرہ اللہ کی کتاب میں موجود ہے، جو اس طرح ہے۔
سورہ الاحزاب، آیت نمبر 63 ’’لوگ تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہو کہ اس کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے۔ اور تم کو کیا خبر، شاید قیامت قریب آلگی ہو۔ بے شک اللہ نے منکروں کو رحمت سے دور کردیا ہے۔‘‘
اسی طرح سورہ لقمان ، آیت نمبر 34 میں اللہ نے قیامت آنے کے بارے میں ارشاد فرمایا:’’بے شک اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ رحم میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا ہے کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بے شک اللہ جاننے والا باخبر ہے۔‘‘
یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ دنیا میں جتنے حادثات رونما ہورہے ہیں، وہ سب کے سب دنیا کے ختم ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بحرالکاہل، بحر اوقیانوس، بحرہند جیسے سمندروں میں سائیکلون، زلزلہ ، آتش فشاں کی شکل میں پیدا ہونے والے حادثات، یہ سب نشانیاں ہیں خدا کی عظیم الشان طاقت کی، دنیا سائنس اور ٹکنالوجی میں جس قدر بھی ترقی کرلے، مگر جو اپنی خود حفاظت نہیں کرسکتی ہے اور جاپان، انڈونیشیا وغیرہ کے جیسے حالات سے خود کو بچا نہیں سکتی ہے۔ وہ قیامت کی تاریخ اور سال کا تعین کیسے کرسکتی ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ:
خدا کے رسول نے قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے چند کی طرف اشارہ فرمادیا ہے۔ ان کے وقوع پذیر ہونے کے قبل قیامت کے آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ قیامت کی بڑی علامتوں میں سے مندرجہ ذیل میں تین بڑے ’’خسف‘‘ زمین کا دھنسنا ایک مشرق میں ایک مغرب میں ایک جزائر العرب میں۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دابۃ الارض کا خروج، دھویں کا نکلنا، خروج دجال، عیسیؑ کی آمد، یاجوج ماجوج کا خروج، حضرت مہدی کا ظہور ، سب سے اخیر میں ایک زبردست آگ جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی وغیرہ، جب تک یہ واقعات پیش نہیں آتے ہیں، قیامت نہیں آئے گی۔ مگر زلزلہ جیسے واقعات کا اس کثرت سے اور اس تباہی کے ساتھ ہونا بھی قیامت کی نشانی ہے اور انسان کو بتایا جارہا ہے کہ سوزالزال کے مطابق جو زلزلہ آنا ہے اس کی علامتیں یہ چھوٹے چھوٹے زلزلے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآنی آیات کی روشنی میں سائنسی انکشافات کو سمجھنے ا ور پڑھنے کی کوشش کریںگے تو ہمیں یقین ہوگا کہ سب کچھ اللہ کی کتاب میں مذکور اصولوں کے زیر اثر ہورہے ہیں۔ جب انسان کی نافرمانی حد سے گزر جاتی ہے تو خدا تنبیہ کے لیے جاپان جیسے واقعات کے ذریعہ ضرور اپنی ہدایات یاد دلاتا ہے۔ خدا جانے کیوں جاپان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سرزمین نے قرآنی تعلیمات کے فروغ پر پابندی لگادی ہے۔ اسلامی شعائر کی مخالفت کی ہے۔ اللہ کرے جاپان کی دھرتی کو یہ احساس ہو کہ اس پر حکومت صرف اللہ کی چلے گی سائنس اور ٹکنالوجی کی نہیں۔ یہ تو خدا کی کائنات کو جاننے سمجھنے میں مددگار ہے اور بس سائنسی علوم خدا کی نشانیوں کے ترجمان ہیں۔ ان کا صحیح استعمال انسان کو خدا کی نگاہ میں بلند کرتا ہے۔ غلط استعمال اور بے بنیاد دعویٰ اللہ کی عنایتوں سے محروم کرتا ہے۔
(جاری)

No comments:

Post a Comment