سونامی، زلزلہ، آتش فشاں میں خدا کی ہدایتیں |
……..گزشتہ سے پیوستہ
سورہ ملک کی آیت نمبر 16-17 کی تفسیر اور ترجمہ کرتے ہوئے شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن اور شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے آسمان سے پتھروں کی بارش اور زمین پھٹنے کی وجہ سے زلزلہ کی تشریح کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے، وہ جاپان کی موجودہ صورت حال کی طرف نہایت لطیف سا اشارہ ہے۔ یہ کچھ اس طرح ہے۔ ’’یعنی زمین کو تمہارے سامنے کیسا پست و ذلیل و نرم کردیا اور مسخر کردیا ہے کہ جو چاہو اس میں تصرف کرو تو چاہیے کہ اس پر اور اس کے پہاڑوں پر چلو پھرو اور روزی کماؤ، مگر اتنا یاد رکھو کہ جس نے روزی دی ہے، اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ خدا نے پہلے اپنے انعامات کو یاد دلایا ہے۔ پھر شان قہر و انتقام یاد دلا کر ان کا ڈرانا اور ہوشیار کرنا مقصود ہے۔ یعنی زمین بے شک تمہارے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ مگر یاد رہے اس پر حکومت اسی آسمان والے کی ہے وہ اگر چاہے تو تم کو زمین میں دھنسا دے۔ اس وقت زمین بھونچال سے لرزنے لگے اور تم اس کے اندر اترتے چلے جاؤ، لہٰذا آدمی کو جائز نہیں کہ اس مالک مختار سے نڈر ہو کر شرارتیں شروع کردے۔ اور اس کے ڈھیل دینے پر مغرور ہوجائے۔ یعنی بیشک زمین پر چلو پھرو اور روزی کماؤ۔ لیکن خدا کو نہ بھولو ورنہ وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر ایک سخت آندھی بھیج دے یا پتھروں کا مینھ برسادے پھر تم کیا کروگے ساری دوڑ دھوپ یونہی رکھی رہ جائے گی یعنی جس عذاب سے ڈرایا گیا ہے، وہ کیسا تباہ کن اور ہولناک ہے۔ یعنی قوم عاد، ثمود، فرعون، لوط وغیرہ کے ساتھ جو معاملہ ہوچکا ہے، اس سے عبرت حاصل کرو۔ دیکھ لو! ان کی حرکات پر انکار کی وجہ سے کیسے عذاب کی صورت میں کیسی کیسی مصیبتیں ظاہر ہوئیں۔
حضرت مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں کچھ اس طرح تشریح کی ہے۔ ’’مراد یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اس زمین پر تمہاری بقا اور تمہای سلامتی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے۔ ورنہ کسی وقت بھی اس کے ایک اشارے پر ایک زلزلہ ایسا آسکتا ہے کہ زمین تمہارے لیے آغوش مادر کے بجائے قبر کا گڑھا بن جائے، یا ہوا کا ایسا طوفان آسکتا ہے جو تمہاری بستیوں کو غارت کر کے رکھ دے۔‘‘
جاپان میں وقوع پذیر حالیہ سونامی، زلزلہ، آتش فشاں، آسمان سے اولہ باری کو ٹھیک سے سمجھنے، عبرت حاصل کرنے اور سائنسی تحقیقات کی روشنی میں مندرجہ بالا قرآنی آیات کو زیادہ اچھی طرح جاننے کے لیے، ان آیات کی تشریح کے ساتھ اب جغرافیائی، سائنسی حقائق کو ذہن میں رکھیں۔ پھر دونوں کے آپسی تال میل کو دیکھیں اور پھر تجزیہ کریں تو خدا کی ذات میں زیادہ یقین اور ایمان میں بے حد پختگی حاصل ہوگی۔ اب تک ہم نے قرآنی ہدایات کی روشنی میں، آسمان سے پتھراؤ کرنے والی آندھی، زمین کے پھٹنے کی وجہ سے زلزلہ اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تباہی کو جاننے کی کوشش کی ہے۔
اب سائنسی اعتبار سے ان معاملات کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ زمین کی جغرافیائی حالت اور اس کی بیرونی و اندرونی بناوٹ کو ٹھیک سے سمجھیں جو کچھ اس طرح ہے۔
زمین کی اندرونی اور بیرونی بناوٹ
ہماری زمین کے اندر نظر نہیں آنے والی ہزاروں ہزار دراڑیں ہیں جو ہر لمحہ زلزلہ آنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ہر ایک سکینڈ میں تقریباً 2 بار زلزلے آتے ہیں، یہ زلزلے زیادہ تر سمندروں اور جنگلوں میں آتے ہیں، اس لیے ہمیں پوری واقفیت نہیں ہوتی ہے، صرف ایک سو زلزلے ایسے ہوتے ہیں جس سے زمین اور مکان کے صرف ہلنے کا پتہ چلتا ہے اور سال بھر میں صرف پانچ زلزلے ایسے ہوتے ہیں جو غضناک تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ عمارتیں زمیں بوس ہوجاتی ہیں۔ سڑکیں تہس نہس ہوجاتی ہیں۔ زمین سے گندھگ، گیس، گرم پانی اور دیگر معدنی اشیاء کا اخراج ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتاہے اس کو سمجھنا بے حد ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ زمین کے اندر پوشیدہ ہزاروں دراڑوں کے علاوہ سیٹلائٹس یا تحقیقی اور تجزیاتی نتائج کی بنیاد پر جو دراڑیں صاف نظر آئی ہیں اور ان کے کردار کی پوری جانکاری دسیتاب ہوئی ہے، ا س کے مطابق تقریباً بیس دراڑیں ہیں اور جو نظر بھی آتی ہیں اور سائنسی آلات کی مدد سے ان سب کی تصدیق اور تحقیق ہوگئی ہے، وہ اس طرح ہیں، اسے سمجھنے کے لیے ہم اپنا سفر جاپان سے ہی شروع کرتے ہیں تاکہ ہمیں آسانی ہو۔
جاپان تین بڑی دراڑوں یا تین بڑی پلیٹوں کے جوڑ پر واقع ہے۔ اس لیے اس کی سرزمین پر تین طرف سے دباؤ پڑتا رہتا ہے اور جاپان ان تینوں دراڑوں یا پلیٹوں یا چٹانوں کے بیچ مین بالکل ’’سینڈوچ‘‘ کی طرف دبا ہوا ہے۔ جاپان کو پورب جانب سے Pacific Plate (بحرالکاہل پلیٹ)، پچھم جانب سے یوریشیا پلیٹ اور دکھن کی جانب سے فلپائن پلیٹ ہمیشہ دبا کر اپنا دباؤ بناتا رہتا ہے۔ یعنی جاپان کا محل وقوع نہایت نازک، اتھل پتھل حالات سے گھرا ہوا ہے۔ جاپان کے انتہائی شمال سے شروع ہو کر فلپائن کی پلیٹ کے پچھمی کنارے سے گزر کر انڈونیشیا، سنگاپور کے حلقہ میں پھیل کر ایک آتشی دائرہ بناتا ہے جسے Ring of fire کہتے ہیں۔ اس کے اثر میں آنے والے تمام خطے، سونامی، زلزلے، آتش فشاں پہاڑوں کے حلقوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ ان خطوں میں اس طرح کی تباہی ہمیشہ اپنا سر اٹھاتی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں زلزلہ آنے کی شدت اور تعداد مقابلتاً زیادہ ہے۔
ان پلیٹوں کے علاوہ جو دنیا کی دیگر پلیٹیں یا DRIFT ہیں۔ اس کے مطالعہ سے زمین کی جغرافیائی حالت اور سائنسی تحقیق کو سمجھنے میں بے حد مدد ملے گی اور تب قرآنی آیات کی مدد سے دنیا میں پیدا ہونے والے حادثات کا صحیح صحیح پتہ لگانا آسان ہوگا۔ اس لیے ان تمام باقی ماندہ پلیٹوں یا DRIFT کو ہم اچھی طرح ذہن نشین کرلیں، جو مندرجہ ذیل ہیں۔
فلپائن پلیٹ کے بالکل نیچے جنوب کی طرف AROLINE PLATE ہے۔ یہ سب پلیٹیں خط استوا کے شمال میں ہیں۔ زمین کو دو برابر گولائی والے حصوں میں تقسیم کرنے والے اس ’’خط استوا‘‘ کے دکھن میں ہے SOLOMAN PLATE اس کے نیچے ہے فجی پلیٹ(FIJI PLATE) یہ سب خط استوا سے دکھن میں ہے۔ اس کے علاوہ ہیں انڈوآسٹریلیا پلیٹ، ہندوستان کے اترپچھم میں ہے ایران پلیٹ۔ ایران کے دکھن اور ہندوستان کے پچھم میں ہے۔ عربین پلیٹ ہند مہاساگر کے پچھم اور عربین پلیٹ کے پچھم میں ہے۔ افریقین پلیٹ اس کے ٹھیک اوپر ہے۔ اناٹولین ANATOLIAN PLATE ۔ اسی طرح افریقن پلیٹ کے ٹھیک نیچے یعنی جنوب میں ہے۔ انٹارکٹک پلیٹ اس کے ٹھیک پچھم میں ہے۔ SCOTLA PLATE کے ٹھیک اوپر شمال کی جانب ہے۔ ساؤتھ امریکن پلیٹ جس کے ٹھیک مغرب میں ہے NAZCA PLATE اس کے اوپر ہے COCOS PLATE ۔ جنوبی امریکی پلیٹ کے ٹھیک سر پر ہے۔ کریبین CARABBIAN PLATE اس کے ٹھیک اوپر شمال میں ہے شمالی امریکی پلیٹ۔
نارتھ اور ساؤتھ امریکہ کے پچھم کوکس اور نازکا پلیٹ ہیں ان سب کے ٹھیک پچھم میںہے مشہور پیسفک پلیٹ Pacific Plate اسی کا پوربی حصہ گولائی کی وجہ سے جاپان سے سیدھے ملتا ہے اور یہ پلیٹ جاپان کو پورب سے پچھم کی طرف پوری شدت سے دباتا ہے۔ جب کہ یوریشیا پلیٹ ’’جاپان کو پچھم سے پورب کی طرف دھکیلتا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اسی جاپان کو فلپائن پلیٹ دکھن سے شمال کی جانب دھکا دیتا رہتا ہے۔ ان تین مخالف سمتوں کی طاقت کے درمیان جاپان کی سرزمین بلبلاتی اور چیختی چلاتی رہتی ہے اور لرزہ براندام ہو کر نہایت شدت سے کانپ اٹھتی ہے۔ اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا کہ 11 مارچ 2011 کو جاپان تھرتھرا گیا اور قیامت کا سا سماں پیدا ہوگیا۔ شمالی امریکہ کے بالکل شمال مغرب اور پیسفک Pacific Plate کے ٹھیک اتر پورب میں ہےJuan De Fuca Plate۔ اس طرح زمین کی اوپری سطح تقریباً 47 میل اندر تک بری طرح پھٹی ہوئی، بھیانک دراڑوں والی ہے۔ اس کے کافی نیچے 2000 کلومیٹر کی گولائی میں زمین کے مرکز کے چاروں طرف پگھلی ہوئی چٹانیں، پگھلے ہوئے پتھروں پر مشتمل آگ کی ندی بہتی رہتی ہے۔ اس آگ کا درجہ حرارت 5500 ڈگر سینٹی گریڈ ہے۔ زمین کی یہ دراڑیں اسے ہر لمحہ بے چین اور لرزہ براندام کرتی رہتی ہیں، کیوں کہ ان دراڑوں یا چٹانوں کی تین طرح کی حرکت ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ ان پلیٹوں کو ان کی حرکتوں کی بنیاد پر تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1 – Divergen Plates یا دور ہٹنے والی پلیٹیں۔ ایک دوسرے سے مخالف سمت میں الگ ہوتی ہیں۔
2- Convergnt Plates یا متصادم اور آپس میں ٹکرانے والی پلیٹیں جیسے دو مخالف طاقتیں ایک دوسرے سے سر کے بل ٹکرا رہی ہوں۔
3- Strike- Slip Fault یا ایک دوسرے پر پھسلنے والی پلیٹیں یہ پلیٹیں ایک دوسرے سے دور ہوتی ہیں تو ان دونوں کی دراڑ زیادہ کشادہ ہوجاتی ہیں اور درمیان سے پگھلے ہوئے لاوے اور دیگر معدنیات نہایت طاقت سے زمین کے اندر سے باہر آتے ہیں اور زمین تھرتھرانے لگتی ہے۔
اگر دراڑیں ایک دوسرے سے آمنے سامنے ٹکراتی ہیں تو بے پناہ دباؤ اور حرارت کا اخراج ہوتاہے زمین شدت سے کپکپانے لگتی ہے اور ساری چیزوں کو شدت کے تناسب سے ہلا ڈالتی ہے اور اگر چٹانیں ایک دوسرے پر پھسلتی ہیں تو اس صورت میں ایک دوسرے کو چکی کے پاٹوں کی طرح پیستی رگڑتی ہیں۔ نتیجہ ہوتا ہے کہ اس عمل سے پیدا شدہ دباؤ۔ انرجی کو باہر نکلنا ہوتا ہے۔ تینوں صورتوں میں زمین ہلتی ہے۔ آتش فشاں ابال کھاتا ہے۔ زمین کے اندر کی ’’گندھکی‘‘ گیس اور دیگر قسم کی باہر نکلتی ہیں اور نہایت سرعت کے ساتھ اونچائی کو پہنچ کر ٹھنڈی ہو کر پتھروں کی شکل میں برسنے لگتی ہیں۔ غالباً ایسے ہی عذاب کو خدا نے سورہ ملک کی آیت نمبر 16-17 میں ارشاد فرمایا ہے کہ’’کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے، تمہیں زمین میں دھنسادے اور یکایک زمین جھکولے کھانے لگے؟ کیا تم اس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تم پر پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دے، پھر تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ (خدا کی) میری تنبیہ کیسی ہے۔‘‘
زمین کی انہیں دراڑوں سے ہزاروں کلو میٹر گہرائی سے ’’لاوا‘‘ میگما، آتش فشاں پہاڑ کی شکل میں نکلتا ہے۔ اگرچہ یہ پلٹیں جو زمین کی سطح یا Crust بناتی ہیں وہ سال بھر میں صرف چند انچ ہی بڑھتی ہیں، لیکن زمین کروڑوں یا Million سالوں میں اپنے Crust یا سطح کے ساتھ ہزاروں میل کی مختلف دوریوں میں بٹ گئی ہے۔ اسی عمل کے نتیجہ میں نئے نئے براعظم، سمندر اور پہاڑوں کی تخلیق ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمالیہ پہاڑ کی تخلیق 10 سے 20 کروڑ سال قبل ہوئی، کیوں کہ ہندوستانی براعظم Gund Wanaland یعنی افریقہ کا حصہ تھا اور وہ ایشیا کے براعظم سے متصادم ہوا۔ اس طرح انڈوآسٹریلیا پلیٹ (ہندوستان اور آسٹریلیا مل کر ایک چٹان بناتے ہیں) کا کھسکنا شمال کی جانب جاری رہا جو Continent کرسٹ یا سطح کو ہٹاتا گیا اور ہمالیہ پہاڑ کی تخلیق کر کے اسے اوپر اٹھاتا گیا۔ یہ دنیا کا سب سے اونچا اور جوان پہاڑی سلسلہ ہے، یہ 80 کروڑ سال پہلے افریقہ کا حصہ تھا۔ اس کا سلسلہ چین سے لے کر ہندوستان، پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔ زمین کی اسی جغرافیائی خصوصیت کی وجہ سے ساؤتھ امریکہ کے بالکل انتہائی جنوب سے شروع ہو کر بحرالکاہل کے کنارے شمالی امریکہ کے جنوبی مغربی حصہ تک، کوہ آتش فشاں کا سلسلہ ہے جو زندہ ہے اور سرگرم ہے، جس سے جاپان کی طرح کی سونامی کا خطرہ ہمیشہ موجود ہے۔
سورہ ملک کی آیت نمبر 16-17 کی تفسیر اور ترجمہ کرتے ہوئے شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن اور شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے آسمان سے پتھروں کی بارش اور زمین پھٹنے کی وجہ سے زلزلہ کی تشریح کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے، وہ جاپان کی موجودہ صورت حال کی طرف نہایت لطیف سا اشارہ ہے۔ یہ کچھ اس طرح ہے۔ ’’یعنی زمین کو تمہارے سامنے کیسا پست و ذلیل و نرم کردیا اور مسخر کردیا ہے کہ جو چاہو اس میں تصرف کرو تو چاہیے کہ اس پر اور اس کے پہاڑوں پر چلو پھرو اور روزی کماؤ، مگر اتنا یاد رکھو کہ جس نے روزی دی ہے، اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ خدا نے پہلے اپنے انعامات کو یاد دلایا ہے۔ پھر شان قہر و انتقام یاد دلا کر ان کا ڈرانا اور ہوشیار کرنا مقصود ہے۔ یعنی زمین بے شک تمہارے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ مگر یاد رہے اس پر حکومت اسی آسمان والے کی ہے وہ اگر چاہے تو تم کو زمین میں دھنسا دے۔ اس وقت زمین بھونچال سے لرزنے لگے اور تم اس کے اندر اترتے چلے جاؤ، لہٰذا آدمی کو جائز نہیں کہ اس مالک مختار سے نڈر ہو کر شرارتیں شروع کردے۔ اور اس کے ڈھیل دینے پر مغرور ہوجائے۔ یعنی بیشک زمین پر چلو پھرو اور روزی کماؤ۔ لیکن خدا کو نہ بھولو ورنہ وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر ایک سخت آندھی بھیج دے یا پتھروں کا مینھ برسادے پھر تم کیا کروگے ساری دوڑ دھوپ یونہی رکھی رہ جائے گی یعنی جس عذاب سے ڈرایا گیا ہے، وہ کیسا تباہ کن اور ہولناک ہے۔ یعنی قوم عاد، ثمود، فرعون، لوط وغیرہ کے ساتھ جو معاملہ ہوچکا ہے، اس سے عبرت حاصل کرو۔ دیکھ لو! ان کی حرکات پر انکار کی وجہ سے کیسے عذاب کی صورت میں کیسی کیسی مصیبتیں ظاہر ہوئیں۔
حضرت مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں کچھ اس طرح تشریح کی ہے۔ ’’مراد یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اس زمین پر تمہاری بقا اور تمہای سلامتی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے۔ ورنہ کسی وقت بھی اس کے ایک اشارے پر ایک زلزلہ ایسا آسکتا ہے کہ زمین تمہارے لیے آغوش مادر کے بجائے قبر کا گڑھا بن جائے، یا ہوا کا ایسا طوفان آسکتا ہے جو تمہاری بستیوں کو غارت کر کے رکھ دے۔‘‘
جاپان میں وقوع پذیر حالیہ سونامی، زلزلہ، آتش فشاں، آسمان سے اولہ باری کو ٹھیک سے سمجھنے، عبرت حاصل کرنے اور سائنسی تحقیقات کی روشنی میں مندرجہ بالا قرآنی آیات کو زیادہ اچھی طرح جاننے کے لیے، ان آیات کی تشریح کے ساتھ اب جغرافیائی، سائنسی حقائق کو ذہن میں رکھیں۔ پھر دونوں کے آپسی تال میل کو دیکھیں اور پھر تجزیہ کریں تو خدا کی ذات میں زیادہ یقین اور ایمان میں بے حد پختگی حاصل ہوگی۔ اب تک ہم نے قرآنی ہدایات کی روشنی میں، آسمان سے پتھراؤ کرنے والی آندھی، زمین کے پھٹنے کی وجہ سے زلزلہ اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تباہی کو جاننے کی کوشش کی ہے۔
اب سائنسی اعتبار سے ان معاملات کو سمجھنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ زمین کی جغرافیائی حالت اور اس کی بیرونی و اندرونی بناوٹ کو ٹھیک سے سمجھیں جو کچھ اس طرح ہے۔
زمین کی اندرونی اور بیرونی بناوٹ
ہماری زمین کے اندر نظر نہیں آنے والی ہزاروں ہزار دراڑیں ہیں جو ہر لمحہ زلزلہ آنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ہر ایک سکینڈ میں تقریباً 2 بار زلزلے آتے ہیں، یہ زلزلے زیادہ تر سمندروں اور جنگلوں میں آتے ہیں، اس لیے ہمیں پوری واقفیت نہیں ہوتی ہے، صرف ایک سو زلزلے ایسے ہوتے ہیں جس سے زمین اور مکان کے صرف ہلنے کا پتہ چلتا ہے اور سال بھر میں صرف پانچ زلزلے ایسے ہوتے ہیں جو غضناک تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ عمارتیں زمیں بوس ہوجاتی ہیں۔ سڑکیں تہس نہس ہوجاتی ہیں۔ زمین سے گندھگ، گیس، گرم پانی اور دیگر معدنی اشیاء کا اخراج ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتاہے اس کو سمجھنا بے حد ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ زمین کے اندر پوشیدہ ہزاروں دراڑوں کے علاوہ سیٹلائٹس یا تحقیقی اور تجزیاتی نتائج کی بنیاد پر جو دراڑیں صاف نظر آئی ہیں اور ان کے کردار کی پوری جانکاری دسیتاب ہوئی ہے، ا س کے مطابق تقریباً بیس دراڑیں ہیں اور جو نظر بھی آتی ہیں اور سائنسی آلات کی مدد سے ان سب کی تصدیق اور تحقیق ہوگئی ہے، وہ اس طرح ہیں، اسے سمجھنے کے لیے ہم اپنا سفر جاپان سے ہی شروع کرتے ہیں تاکہ ہمیں آسانی ہو۔
جاپان تین بڑی دراڑوں یا تین بڑی پلیٹوں کے جوڑ پر واقع ہے۔ اس لیے اس کی سرزمین پر تین طرف سے دباؤ پڑتا رہتا ہے اور جاپان ان تینوں دراڑوں یا پلیٹوں یا چٹانوں کے بیچ مین بالکل ’’سینڈوچ‘‘ کی طرف دبا ہوا ہے۔ جاپان کو پورب جانب سے Pacific Plate (بحرالکاہل پلیٹ)، پچھم جانب سے یوریشیا پلیٹ اور دکھن کی جانب سے فلپائن پلیٹ ہمیشہ دبا کر اپنا دباؤ بناتا رہتا ہے۔ یعنی جاپان کا محل وقوع نہایت نازک، اتھل پتھل حالات سے گھرا ہوا ہے۔ جاپان کے انتہائی شمال سے شروع ہو کر فلپائن کی پلیٹ کے پچھمی کنارے سے گزر کر انڈونیشیا، سنگاپور کے حلقہ میں پھیل کر ایک آتشی دائرہ بناتا ہے جسے Ring of fire کہتے ہیں۔ اس کے اثر میں آنے والے تمام خطے، سونامی، زلزلے، آتش فشاں پہاڑوں کے حلقوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ ان خطوں میں اس طرح کی تباہی ہمیشہ اپنا سر اٹھاتی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں زلزلہ آنے کی شدت اور تعداد مقابلتاً زیادہ ہے۔
ان پلیٹوں کے علاوہ جو دنیا کی دیگر پلیٹیں یا DRIFT ہیں۔ اس کے مطالعہ سے زمین کی جغرافیائی حالت اور سائنسی تحقیق کو سمجھنے میں بے حد مدد ملے گی اور تب قرآنی آیات کی مدد سے دنیا میں پیدا ہونے والے حادثات کا صحیح صحیح پتہ لگانا آسان ہوگا۔ اس لیے ان تمام باقی ماندہ پلیٹوں یا DRIFT کو ہم اچھی طرح ذہن نشین کرلیں، جو مندرجہ ذیل ہیں۔
فلپائن پلیٹ کے بالکل نیچے جنوب کی طرف AROLINE PLATE ہے۔ یہ سب پلیٹیں خط استوا کے شمال میں ہیں۔ زمین کو دو برابر گولائی والے حصوں میں تقسیم کرنے والے اس ’’خط استوا‘‘ کے دکھن میں ہے SOLOMAN PLATE اس کے نیچے ہے فجی پلیٹ(FIJI PLATE) یہ سب خط استوا سے دکھن میں ہے۔ اس کے علاوہ ہیں انڈوآسٹریلیا پلیٹ، ہندوستان کے اترپچھم میں ہے ایران پلیٹ۔ ایران کے دکھن اور ہندوستان کے پچھم میں ہے۔ عربین پلیٹ ہند مہاساگر کے پچھم اور عربین پلیٹ کے پچھم میں ہے۔ افریقین پلیٹ اس کے ٹھیک اوپر ہے۔ اناٹولین ANATOLIAN PLATE ۔ اسی طرح افریقن پلیٹ کے ٹھیک نیچے یعنی جنوب میں ہے۔ انٹارکٹک پلیٹ اس کے ٹھیک پچھم میں ہے۔ SCOTLA PLATE کے ٹھیک اوپر شمال کی جانب ہے۔ ساؤتھ امریکن پلیٹ جس کے ٹھیک مغرب میں ہے NAZCA PLATE اس کے اوپر ہے COCOS PLATE ۔ جنوبی امریکی پلیٹ کے ٹھیک سر پر ہے۔ کریبین CARABBIAN PLATE اس کے ٹھیک اوپر شمال میں ہے شمالی امریکی پلیٹ۔
نارتھ اور ساؤتھ امریکہ کے پچھم کوکس اور نازکا پلیٹ ہیں ان سب کے ٹھیک پچھم میںہے مشہور پیسفک پلیٹ Pacific Plate اسی کا پوربی حصہ گولائی کی وجہ سے جاپان سے سیدھے ملتا ہے اور یہ پلیٹ جاپان کو پورب سے پچھم کی طرف پوری شدت سے دباتا ہے۔ جب کہ یوریشیا پلیٹ ’’جاپان کو پچھم سے پورب کی طرف دھکیلتا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اسی جاپان کو فلپائن پلیٹ دکھن سے شمال کی جانب دھکا دیتا رہتا ہے۔ ان تین مخالف سمتوں کی طاقت کے درمیان جاپان کی سرزمین بلبلاتی اور چیختی چلاتی رہتی ہے اور لرزہ براندام ہو کر نہایت شدت سے کانپ اٹھتی ہے۔ اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا کہ 11 مارچ 2011 کو جاپان تھرتھرا گیا اور قیامت کا سا سماں پیدا ہوگیا۔ شمالی امریکہ کے بالکل شمال مغرب اور پیسفک Pacific Plate کے ٹھیک اتر پورب میں ہےJuan De Fuca Plate۔ اس طرح زمین کی اوپری سطح تقریباً 47 میل اندر تک بری طرح پھٹی ہوئی، بھیانک دراڑوں والی ہے۔ اس کے کافی نیچے 2000 کلومیٹر کی گولائی میں زمین کے مرکز کے چاروں طرف پگھلی ہوئی چٹانیں، پگھلے ہوئے پتھروں پر مشتمل آگ کی ندی بہتی رہتی ہے۔ اس آگ کا درجہ حرارت 5500 ڈگر سینٹی گریڈ ہے۔ زمین کی یہ دراڑیں اسے ہر لمحہ بے چین اور لرزہ براندام کرتی رہتی ہیں، کیوں کہ ان دراڑوں یا چٹانوں کی تین طرح کی حرکت ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ ان پلیٹوں کو ان کی حرکتوں کی بنیاد پر تین قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1 – Divergen Plates یا دور ہٹنے والی پلیٹیں۔ ایک دوسرے سے مخالف سمت میں الگ ہوتی ہیں۔
2- Convergnt Plates یا متصادم اور آپس میں ٹکرانے والی پلیٹیں جیسے دو مخالف طاقتیں ایک دوسرے سے سر کے بل ٹکرا رہی ہوں۔
3- Strike- Slip Fault یا ایک دوسرے پر پھسلنے والی پلیٹیں یہ پلیٹیں ایک دوسرے سے دور ہوتی ہیں تو ان دونوں کی دراڑ زیادہ کشادہ ہوجاتی ہیں اور درمیان سے پگھلے ہوئے لاوے اور دیگر معدنیات نہایت طاقت سے زمین کے اندر سے باہر آتے ہیں اور زمین تھرتھرانے لگتی ہے۔
اگر دراڑیں ایک دوسرے سے آمنے سامنے ٹکراتی ہیں تو بے پناہ دباؤ اور حرارت کا اخراج ہوتاہے زمین شدت سے کپکپانے لگتی ہے اور ساری چیزوں کو شدت کے تناسب سے ہلا ڈالتی ہے اور اگر چٹانیں ایک دوسرے پر پھسلتی ہیں تو اس صورت میں ایک دوسرے کو چکی کے پاٹوں کی طرح پیستی رگڑتی ہیں۔ نتیجہ ہوتا ہے کہ اس عمل سے پیدا شدہ دباؤ۔ انرجی کو باہر نکلنا ہوتا ہے۔ تینوں صورتوں میں زمین ہلتی ہے۔ آتش فشاں ابال کھاتا ہے۔ زمین کے اندر کی ’’گندھکی‘‘ گیس اور دیگر قسم کی باہر نکلتی ہیں اور نہایت سرعت کے ساتھ اونچائی کو پہنچ کر ٹھنڈی ہو کر پتھروں کی شکل میں برسنے لگتی ہیں۔ غالباً ایسے ہی عذاب کو خدا نے سورہ ملک کی آیت نمبر 16-17 میں ارشاد فرمایا ہے کہ’’کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے، تمہیں زمین میں دھنسادے اور یکایک زمین جھکولے کھانے لگے؟ کیا تم اس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تم پر پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دے، پھر تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ (خدا کی) میری تنبیہ کیسی ہے۔‘‘
زمین کی انہیں دراڑوں سے ہزاروں کلو میٹر گہرائی سے ’’لاوا‘‘ میگما، آتش فشاں پہاڑ کی شکل میں نکلتا ہے۔ اگرچہ یہ پلٹیں جو زمین کی سطح یا Crust بناتی ہیں وہ سال بھر میں صرف چند انچ ہی بڑھتی ہیں، لیکن زمین کروڑوں یا Million سالوں میں اپنے Crust یا سطح کے ساتھ ہزاروں میل کی مختلف دوریوں میں بٹ گئی ہے۔ اسی عمل کے نتیجہ میں نئے نئے براعظم، سمندر اور پہاڑوں کی تخلیق ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمالیہ پہاڑ کی تخلیق 10 سے 20 کروڑ سال قبل ہوئی، کیوں کہ ہندوستانی براعظم Gund Wanaland یعنی افریقہ کا حصہ تھا اور وہ ایشیا کے براعظم سے متصادم ہوا۔ اس طرح انڈوآسٹریلیا پلیٹ (ہندوستان اور آسٹریلیا مل کر ایک چٹان بناتے ہیں) کا کھسکنا شمال کی جانب جاری رہا جو Continent کرسٹ یا سطح کو ہٹاتا گیا اور ہمالیہ پہاڑ کی تخلیق کر کے اسے اوپر اٹھاتا گیا۔ یہ دنیا کا سب سے اونچا اور جوان پہاڑی سلسلہ ہے، یہ 80 کروڑ سال پہلے افریقہ کا حصہ تھا۔ اس کا سلسلہ چین سے لے کر ہندوستان، پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔ زمین کی اسی جغرافیائی خصوصیت کی وجہ سے ساؤتھ امریکہ کے بالکل انتہائی جنوب سے شروع ہو کر بحرالکاہل کے کنارے شمالی امریکہ کے جنوبی مغربی حصہ تک، کوہ آتش فشاں کا سلسلہ ہے جو زندہ ہے اور سرگرم ہے، جس سے جاپان کی طرح کی سونامی کا خطرہ ہمیشہ موجود ہے۔
No comments:
Post a Comment