Saturday, 28 March 2015

سونامی، زلزلہ، آتش فشاں میں خدا کی ہدایتیں

(وصی احمد نعمانی ایڈووکیٹ(سپریم کورٹ
……..گزشتہ سے پیوستہ
قرآن سائنس اور کائنات کے عنوان کے تحت ’’چوتھی دنیا‘‘ میں سلسلہ وار مضامین شائع کیے جارہے ہیں۔ تقریباً 275 مضامین پر مشتمل یہ سلسلہ جاری ہے۔ زلزلہ، آتش فشاں، سونامی جیسے ذیلی مضامین کا نمبر تقریباً 50 مضامین شائع ہونے کے بعد آنے والا تھا۔ اب تک9 ذیلی مضامین ہی عوام کے سامنے آئے ہیں۔ مگر چونکہ ’’جاپان‘‘ کا حالیہ واقعہ جس کی شروعات 11 مارچ 2011 یعنی دوسرے ہفتہ سے شروع ہوا اور اب تک اس کا مابعد اثر باقی ہے، یہاں تک کہ مورخہ 29 مارچ کو بھی زلزلہ آیا ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ترتیب کو ذرا سا بدل کر ’’جاپان‘‘ کے حادثہ سے متعلق سائنسی انکشافات اور قرآنی آیات میں ایسے حالات کے تذکرہ پر مبنی باتیں قارئین کی یاد داشت کے حوالے کی جائیں، تاکہ ان کا ذہن جو حادثات کی وجہ سے چوکنا اور بیدار ہے، وہ سائنسی تحقیق کی روشنی میں قرآنی پیشین گوئی کو اچھی طرح سمجھ کر اس بات میں اعتماد پیدا کرسکے کہ کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے تمام واقعات، حادثات خدا کے حکم کی تعمیل میں ہوتے ہیں اور اس طرح کے حادثات کے حوالے قرآن کریم میں بہت ہی روشن باب کی طرح مذکور ہیں اور انسان کو بار بار یاد دلاتے ہیں کہ وہ صرف ایک خدا کی عبادت کر کے اس کی وحدانیت کو مانیں اور صرف اس کی عنایتوں کے سہارے اپنی سانسیں لینے کا طریقہ اپنائیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ’’سائنس اور ٹکنالوجی‘‘ کے اس ترقی یافتہ دور میں صرف وہی بات سچ اور درست ثابت ہورہی ہے جو درحقیقت بنیادی طور پر سچ اور درست ہیں، ورنہ سائنسی تحقیقات تو فرضی اور من گھڑت باتوں، اصولوں، عقیدوں کو سرے سے خارج کرکے ثبوت و دلیل کی بنیاد پر بے وجود ثابت کرتی ہے۔ چونکہ خدا کا کلام سچ، درست، برحق ہے، کیوں کہ یہ خالق کائنات کا کلام ہے، اس لیے ہر وہ اصول اور نظریہ تحقیق یا ریسرچ جو حقیقت پسندی اور بے لوث نتائج پر مبنی ہیں، وہ سب اس بات کا اقرار اور اقبال کرتے ہیں کہ قرآن آسمانی کتاب ہے۔ جو لوح محفوظ میں درج ہے اور ساری کائنات کے سارے واقعات اس قرآن کریم میں فرمودہ ہدایات کی روشنی میں وقوع پذیر ہوتے ہیں اور تمام حادثات کلام اللہ کے حکم کے مطابق ہی صادر ہوتے ہیں۔
جاپان کا حالیہ واقعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ زمین کی بناوٹ، سمندر کی کارکردگی، آتش فشاں اور زلزلہ ٹھیک اسی طرح واقع ہوتا ہے جیسا کہ سائنس نے ہزاروں سال کی تحقیق کے بعد دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور سائنس کی یہ ’’تحقیق‘‘ نہایت مضبوطی سے ثابت کرتی ہے کہ ان واقعات کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے۔ سائنس جیسے جیسے تحقیقی میدان میں کامیابی حاصل کرتی جائے گی، قرآن کے بے پناہ رموز آشکار ہوتے جائیںگے اور دنیا اس آفاقی کتاب میں یقین کرکے، عمل کر کے خود کو خوش نصیب بناتی جائے گی۔ انکار کر کے اپنی بدبختی کو دعوت دے گی۔
سونامی، زلزلہ، آتش فشاں، آسمان سے برف کی بارش یہ سب ایک ساتھ اب کی بار جاپان میں واقع ہوا ہے۔ یہ غیر معمولی واقعہ ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اور ہمیشہ ہوتا ہی رہے گا۔ دنیا کے کن کن حصوں میں ہوتا رہے گا۔ ان سب کا اشارہ کلام پاک میں بھی ملتا ہے۔ حدیث نبویﷺ میں بھی موجود ہے، جس کی تفصیل ترتیب وار مضامین میں آئے گی۔
قرآن کی آیات اور سائنس کے نظریوں کے پیش نظر ان حادثات کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مندرجہ ذیل نکتوں کو اپنے ذہن میں رکھیں اور تدبر کریں تو یہ یقین ہوجائے گا کہ سائنس آج ہماری مددگار زندگی کے ہر شعبہ میں تو ہے ہی۔ وہ قرآن کریم کی بے شمار آیتوں کو ٹھیک سے سمجھنے میں بھی ہم سفر ہے اور یہ تو خدا کی بے شمار کرشمہ سازیوں کو کھلی اور بند آنکھوں سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ جاپان کے حالیہ واقعہ کو بنیاد مان کر ہم کافی قرآنی آیات کی تشریح کو سمجھنے میں مدد حاصل کرسکیںگے جو ہماری آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہوںگی اور اس اللہ رب العزت کی وحدانیت میں یقین مضبوط کریںگی۔ ہمیں اعتماد اور مکمل ایمان و یقین کے ساتھ اس رب کائنات کے حضور سجدہ ریز ہو کر اس کے سپرد خود کو کردینے کا موقع ملے گا۔ وہ نکتے یہ ہیں:
(1) قرآنی آیات میں جاپان کے حادثات کی طرح کے واقعات کا تذکرہ موجودہے۔
(2) زمین کی اندرونی اور بیرونی بناوٹ سے ہمیں قرآنی آیات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
(3) سائنسی تحقیق کے مطابق زمین کی اندرونی اور بیرونی کارکردگی۔
(4) سائنسی اور قرآنی دلائل کی مدد سے دونوں میں ’’یکسانیت‘‘ جو یہ ماننے کے لیے اعتماد پیدا کرتا ہے کہ سائنسی جدید ترین تحقیقات اور ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔
اس طرح جاپان کی موجودہ حالات کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے قرآنی آیات پر مبنی نظریوں کو جب عقل و شعور اور فکر و تدبر کی آنکھوں سے دیکھیںگے تو یہ صاف نظر آئے گا کہ ’’سائنس قرآن کے دربار میں‘‘ دست بستہ کہتی ہے کہ ہم تو صرف ان کرشموں کو آشکار کرنے کی لگاتار جد و جہد کرتے ہیں جو پہلے سے اس کائنات میں خدا کے حکم سے موجود ہیں۔ ہم تو ان کرشموں کو تحقیق کے ذریعہ پا کر اس ’’رب‘‘ کا حکم بجا لیتے ہیں، جو ہمارے ’’دامن‘‘ میں وہ بھر دیتا ہے اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ سائنس کا کمال ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خدا جن سائنس دانوں کو نوازتا ہے، انہیں سے وہ کائنات کے راز کو آشکار کرتا ہے۔ آپ تمام قارئین سے درخواست ہے کہ آپ دو اہم نکات کو تو اپنے ذہنوں میں ضرور محفوظ رکھیں، تاکہ شک و شبہ سے دور ریاضی کے طور پر ٹھیک ٹھیک حساب لگا کر اپنے ایمان و یقین کو مضبوط تر کرسکیں۔ یہ دونوں نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) قرآنی آیات
(2) اس معاملہ میں سائنسی تحقیق
جاپان کی طرح کے حادثات و واقعات سے متعلق قرآنی آیات کے تراجم پیش خدمت ہیں تاکہ آپ پہلے قرآنی فرمان کو ذہن میں رکھیں۔ اس کے بعد سائنسی انکشافات پیش کیے جائیں گے۔ ملاحظہ فرمائیں سورۂ الزلزال، آیت نمبر 1-8۔ ترجمہ: ’’جب  زمین شدت سے ہلا دی جائے گی اور زمین اپنا بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوگیاہے۔ اس دن وہ اپنے حالات بیان کرے گی، کیوں کہ تمہارے رب کا اس کو یہی حکم ہوگا۔ اس دن لوگ الگ الگ نکلیںگے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں۔ پس جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی، وہ اس کو دیکھ لے گا اور جس شخص نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔‘‘
اس سورہ میں قیامت کے حالات کا تذکرہ ہے اور زلزلہ کی شدت سے زمین کے لرزہ براندام ہوجانے کا تذکرہ ہے۔ اتنی زبردست قوت سے زمین ہلا دی جائے گی کہ خود زمین کے اندر جو کچھ بھی موجود ہے، سب کچھ نکل کر باہر آئے گا، یعنی یہ کہ قیامت کے وقت زبردست زلزلہ پیدا ہوگا، اس میں شدت اتنی زیادہ ہوگی کہ زمین کے اندر ابال پیدا ہوجائے گا، جس سے اس کے پیٹ یا کوکھ میں موجود کوئلہ، پٹرول، پگھلی چٹانیں، تمام معدنیات وغیرہ سب کے سب باہر ہوجائیںگی۔
اسی طرح سورہ تکویر، آیت نمبر 1-14 میں قیامت کے وقت کے حالات کا تذکرہ یوں کیا گیا ہیـ۔
ترجمہ:’’جب سورج لپیٹ (اندھیرا کردیا جائے گا) دیا جائے گا اور جب ستارے بے نور ہوجائیںگے ۔اور جب پہاڑ چلا دئے جائیںگے۔ اور جب دس مہینہ کی اونٹنیاں بھاگی بھاگی پھریںگی۔ اور جب وحشی جانور (گھبرا کر) اکٹھا ہوجائیںگے۔ اور جب سمندر بھڑکا(آگ لگادی جائے گی) دئے جائیںگے۔ اور جب ایک ایک قسم کے لوگ اکٹھا کیے جائیںگے۔ اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔ اور جب اعمال نامے کھولے جائیںگے۔ اور جب آسمان کھل جائے گا۔ اور دوزخ بھڑکائی جائے گی۔ اور جب جنت قریب لائی جائے گی۔ ہر شخص جان لے گا۔ وہ کیا لے کر آیا ہے۔‘‘ان آیات مبارکہ کی بنیاد پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ زمین تتربتر ہوجائے گی۔ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی اس قدر گھبراہٹ ہوگی کہ تمام جانور یعنی شیر، ہرن، بکری جو ایک دوسرے سے خوف کھاتے ہیں اس دن سب کے سب یکجا ہوجائیںگے کسی کو کسی کی فکر نہیں ہوگی۔ سورج کی روشنی ختم ہوجائے گی۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائے گا۔‘‘
سورہ القیامہ، آیت نمبر 5-12 میں اس طرح ذکر ہے۔
ترجمہ:’’وہ (انسان) پوچھتا ہے(ڈھٹائی سے) کہ قیامت کا دن کب آئے گا۔ پس جب آنکھیں خیرہ(پتھرا) ہوجائیںگی۔ اور چاند بے نور ہوجائے گا۔ اور سورج اور چاند اکٹھا کردئے جائیںگے۔ اس دن انسان کہے گا کہاں بھاگوں۔ ہرگز نہیں۔ کہیں پناہ نہیں۔ اس دن (صرف) تیرے رب کے پاس ہی ٹھکانا ہے…۔ جاپان جیسی حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے، زمین سے نکلنے والی گھڑگھڑاتی ہوئی اور دہشت پھیلاتی ہوئی آواز کے بارے میں اللہ نے سورہ القارعہ، آیت نمبر1-11 میں انسان کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ ترجمہ:’’گھڑگھڑانے والی، کیا ہے گھڑکھڑانے والی۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ گھڑگھڑانے والی جس دن لوگ، پتنگوں کی طرح بکھرے ہوئے ہوںگے۔ اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہوجائیںگے۔ پھر جس شخص کا پلہ بھاری ہوگا، وہ دل پسند آرام میں ہوگا۔ اور جس شخص کا پلہ ہلکا ہوگا تو اس کا ٹھکانہ گڑھا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ وہ کیا ہے، بھڑکی ہوئی آگ۔‘‘
اللہ نے سورہ القارعہ میں جس گھڑگھڑاہٹ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کے بارے میں انسان تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ اس آواز میں اس قدر شدت اور لرزش یا کپکپاہٹ ہوگی کہ اس سے پہاڑ ذرہ ذرہ بن کر فضا میں اڑنے لگے گا۔ اس گھڑگھڑاہٹ ’’کمپن‘‘ کی شدت کو جب پہاڑ برداشت نہیں کرسکے گا تو انسان یا دیگر جاندار کی کیا حالت ہوگی اس کا اندازہ بھی انسان ٹھیک سے نہیں لگا سکتا ہے، صرف خدا کو معلوم ہے کہ ’’صور‘‘ کی آواز سے کائنات بکھر جائے گی۔
کائنات کا خالق اللہ سورۂ ملک ، آیت نمبر 15-18 میں انسان کو آگاہ کرتا ہے۔ ترجمہ:’’وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے پست کردیا تو تم اس کے رستوں میں چلو اور اس کے رزق میں سے کھاؤ۔ اور اسی کی طرفہے اٹھنا(جانا)۔ کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو، جو آسمان میں ہے کہ وہ تم کو زمین میں دھنسادے۔ پھر وہ لرزنے لگے۔ کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے۔ بے خوف ہوگئے ہو کہ وہ تم پر پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دے۔ پھر تم جان لو کیسا ہے میرا ڈرانا۔ اور انہوں نے جھٹلایا۔ جوان سے پہلے تھے۔ تو کیسا ہوا میرا انکار۔‘‘
حالیہ جاپانی حادثات میں انسان، زمین کے اندر زندہ دفن بھی ہوگیا۔ زمین پوری شدت کے ساتھ لرزی بھی۔ آسمان سے برفیلا پتھراؤ بھی ہوا۔ اور آتش فشاں نے پھٹ کر آسمان سے گیسوں کی بارش بھی کی۔ رہی سہی کمی ’’ریڈی ایٹر‘‘ کی کرنوں نے پوری کردی۔ اس تباہی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ جاپان پر اپنی کرم فرمائی کرے، وہ بھی خدا کے بندے ہیں۔ ان کی کمیوں کو معاف کردے۔ اور قرآنی آیات کو سمجھنے، عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

No comments:

Post a Comment