ہر لمحہ اعمال نامہ کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے |
وصی احمد نعمانی
قرآن کے بے شمار معجزات اور سائنسی کمالات پر قاری کی نگاہِ دوربیں مرکوز ہیں ۔ ہر ذی روح خاص کر انسان اپنی پوری زندگی میں جو کچھ کرتا ہے ، ان سب کی ریکارڈنگ زمین و آسمان میں قرآن کریم کے فرمان کے مطابق ہوتی رہتی ہے۔ان باتوں کو جدید ترین سائنسی تحقیق نے بھی ثابت کردیا ہے۔ عقل و خرد حیران ہے کہ یہ سب کچھ ہر لمحہ کیسے پوری صحت اور سچائی کے ساتھ ہورہا ہے۔اللہ کی کتاب کے مطابق انسان جو کچھ بولتا ہے ، اس کی آواز بھی ہو بہو ریکارڈ ہوجاتی ہیں۔ اس کی پوری شکل و صورت بھی فوٹو کے ذریعہ ریکارڈ ہورہی ہے یہاں تک کہ انسانوں کے قدموں کے نشانات تک ریکارڈ کرلئے جاتے ہیں۔
قرآن کے بے شمار معجزات اور سائنسی کمالات پر قاری کی نگاہِ دوربیں مرکوز ہیں ۔ ہر ذی روح خاص کر انسان اپنی پوری زندگی میں جو کچھ کرتا ہے ، ان سب کی ریکارڈنگ زمین و آسمان میں قرآن کریم کے فرمان کے مطابق ہوتی رہتی ہے۔ان باتوں کو جدید ترین سائنسی تحقیق نے بھی ثابت کردیا ہے۔ عقل و خرد حیران ہے کہ یہ سب کچھ ہر لمحہ کیسے پوری صحت اور سچائی کے ساتھ ہورہا ہے۔اللہ کی کتاب کے مطابق انسان جو کچھ بولتا ہے ، اس کی آواز بھی ہو بہو ریکارڈ ہوجاتی ہیں۔ اس کی پوری شکل و صورت بھی فوٹو کے ذریعہ ریکارڈ ہورہی ہے یہاں تک کہ انسانوں کے قدموں کے نشانات تک ریکارڈ کرلئے جاتے ہیں۔
اللہ اپنی کتاب میں انسان کی انگلیوں کے نشانات اور قدموں کے نشانات کو اس آدمی کی شناخت کا مکمل ثبوت فرمایا ہے۔ جس کے ذریعہ روزِ حشر انسان اپنے کئے ہوئے گناہوں کو پہچان کر اپنی شناخت کو قبول کرلے گا اور اپنے جرم کا اقبال کرلے گا۔ اس اہم اور نہایت مخصوص مضمون میں قرآن کریم کی آیتوں کا حوالہ اور سائنسی حقائق پر مبنی ثبوت پیش کرکے قاری حضرات سے درخواست کی جاتی ہے کہ قرآن کریم کو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ضرور پڑھیں تاکہ خدا کی کرشمہ سازیوں کا بھرپور یقین ہوسکے اور سائنسی کمالات کے ذریعہ اس آسمانی کتاب کو زیادہ اچھی طرح سمجھنے میں آسانی پیدا ہوسکے ۔
سائنسی جدید ترین تحقیق نے تو یہاں تک ثابت کردیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ قدموں کے نشانات ریکارڈ ہوتے ہیں بلکہ ہر ایک انسان کے قدموں کے نشانات دوسرے کسی بھی انسان کے قدم کے نشان سے بالکل اس طرح الگ اور منفرد ہوتے ہیں جیسے انگوٹھوں کے نشانات۔ یعنی جس طرح ایک انسان کے انگوٹھے کا نشان دوسرے انسان کے انگوٹھے کے نشان سے نہیں ملتا ہے اسی طرح ایک انسان کے پائوں کے نشان دوسرے کسی انسان کے پائوں کے نشان سے نہیں مل سکتے ہیں۔ اللہ اپنی کتاب میں انسان کی انگلیوں کے نشانات اور قدموں کے نشانات کو اس آدمی کی شناخت کا مکمل ثبوت فرمایا ہے۔ جس کے ذریعہ روزِ حشر انسان اپنے کئے ہوئے گناہوں کو پہچان کر اپنی شناخت کو قبول کرلے گا اور اپنے جرم کا اقبال کرلے گا۔ اس اہم اور نہایت مخصوص مضمون میں قرآن کریم کی آیتوں کا حوالہ اور سائنسی حقائق پر مبنی ثبوت پیش کرکے قاری حضرات سے درخواست کی جاتی ہے کہ قرآن کریم کو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ضرور پڑھیں تاکہ خدا کی کرشمہ سازیوں کا بھرپور یقین ہوسکے اور سائنسی کمالات کے ذریعہ اس آسمانی کتاب کو زیادہ اچھی طرح سمجھنے میں آسانی پیدا ہوسکے ۔ اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ’’روز حشر ہر ایک انسان کے ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ پیش کردیا جائے گا۔ اس اعمال نامہ میں وہ سب کچھ درج ہوگا، جو کچھ بھی وہ انسان دنیا میں کرتا تھا اور کہتا تھا۔یہاں تک کہ اس کے قدموں کے نشان تک کے ثبوت موجود ہوں گے۔ اس طرح اس مضمون میں تین خاص باتوں پر تذکرہ ہوگا ’’اس کی ہو بہو تصویریں اس زمین و آسمان میں اس کے تمام حرکات و سکنات کی کھینچی جاتی رہتی ہیں جو کچھ بھی وہ کرتا ہے‘‘۔ ’’ اس انسان کے قدموں کے نشانات تک ریکارڈ کئے جاتے رہتے ہیں وہ جہاں جہاں بھی جاتا آتا رہتا ہے‘‘۔پہلے ہم قرآن اور حدیث کے حوالے پیش کریں گے پھر اس کے بعد سائنسی تحقیق جو مذکورہ بالا تمام حقائق کی تصدیق کرکے سائنسداں انسانی خدمات انجام دے کر خدا کے حکم کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں، حالانکہ ان کا مقصد عام حالات میں قرآنی حقائق کو درست ثابت کرنا نہیں ہوتا ہے۔وہ تو ان حقائق سے بے خبر اپنی زندگی کھپا ڈالتے ہیں کسی نئی بات کو ثابت کرنے کے لئے۔مگر یہ تو قرآن کا اعجاز ہے کہ آخر وہ باتیں جو حتمی طور پر بین الآفاقی پیمانہ پر درست اور خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتی رہتی ہیں ، وہ درست نتائج سائنسدانوں کی تحقیق میں خدا کے حکم سے شامل ہوجاتی ہیں۔کیونکہ اللہ سورہ علق میں ارشاد فرماتا ہے ’’ ہم نے انسان کو وہ سکھایا جسیوہ جانتا نہیں تھا۔ہر علم کا مالک خدا ہے۔ہر علم کو آشکار بھی وہی کرتا ہے۔ یہ تو سائنس دانوں کی خوش بختی ہے کہ وہ ان راز کو جان لیتے ہیں ، جسے صرف خدا جانتا ہے یا اس کے حبیب کو خدا کی جانب سے اطلاع ہوتی ہے۔ آئیے ہم پہلے قرآنی حوالہ جات کو ذہن میں محفوظ کرلیں پھر اس کی سائنسی عرق ریزی پر غور کریں گے ۔ مدعاء اس مضمون کا ہے ’’ جو کچھ بھی انسان کہتا ، بولتا ، کرتا ، یہاں تک کہ جہاں کہیں بھی آتا جاتا ہے وہ سب کچھ ریکارڈ ہوتے رہتے ہیں خود بخود‘‘۔یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے۔ ان باتوں کی تصدیق سائنس بھی کرتی ہے۔ قرآن میں تو ان کے صاف حوالے موجود ہیں یعنی انسان کو کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے ، کہہ رہا ہے، اس کی نگرانی بھی ہوتی ہے اور وہ ہو بہو ریکارڈ بھی ہورہی ہے ، اس کا فوٹو بھی ۔ سورہ یٰس چیپٹر نمبر36 آیت نمبر 12 میں اللہ کا فرمان ہے ’’ یقینا ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھ رہے ہیں جو انہوں نے آگے بھیجا اور جو انہوں نے پیچھے چھوڑا اور ہر چیز ہم نے درج کر لی ہے ایک کھلی کتاب میں ‘‘۔اس آیت کی تفسیر میں تذکیر القرآن صفحہ نمبر 1210 پر حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب نے کچھ اس طرح فرمایا ’’ جدید تحقیقات نے بتایا ہے کہ انسان اپنے منہ سے جو آواز نکالتا ہے وہ نقوش کی صورت میں فضا میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح انسان جو عمل کرتا ہے اس کا عکس بھی حرارتی لہروں کی شکل میں مستقل طور پر دنیا میں موجود ہوتا ہے۔ گویا اس دنیا میں ہر آدمی کی ویڈیو ریکارڈنگ ہورہی ہے۔ یہ تجربہ بتا تا ہے کہ اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ انسان کے علم کے بغیر اور اس کے ارادہ سے آزاد اس کا قول اور عمل مکمل طور پر محفوظ کیا جارہا ہو اور کسی بھی لمحہ اس کو دہرا یا جا سکے، یہی بات سائنس ثابت کرتی ہے کہ یہ سب کچھ دہرایا جا سکتا ہے بلکہ دہرایا جاتا ہے جیسے D VCC.P وغیرہ۔بلکہ سائنس نے تو یہ ثابت کرکے دکھایا کہ ریکارڈ بھی ہورہا ہے، فوٹو بھی کھینچا جارہا ہے۔ایک دوسری آیت میں قرآن کریم میں ارشاد ہے ’’یہ تمہارا بہی کھاتہ ہے جو تم پر سچ سچ بیان کرتا ہے ۔ بے شک ہم اس کو ریکارڈ کر لیا کرتے تھے جو کچھ تم کرتے تھے‘‘۔جناب حافظ صلاح الدین ؒ اورحضرت مولانا عبد الجبار ؒ نے سورہ یس کی آیت نمبر12 کا ترجمہ اس طرح کیا ہے ’’ بلا شبہ ہم ہی زندہ کرتے ہیں مردوں کو اور ہم لکھتے ہیں اسے جو (عمل ) وہ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے آثار (نشان قدم) بھی اور ہر چیز ہم نے محفوظ کر رکھا ہے اس کو ایک واضح کتاب میں ‘‘۔وہ واضح کتاب کیا ہے اس کو سمجھنا ہے۔ حضرت مولانا محمد جونا گڑھی اور حضرت مولانا صلاح الدین یوسف صاحب نے اپنی تفسیر میں ’’ آثارھم‘‘ کا دوسرا مطلب نشانات قدم سے لیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’ انسان نیکی یا بدی کے لئے جو سفر کرتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو قدموں کے یہ نشانات بھی لکھے جاتے ہیں۔ جیسے عہد رسالت میں مسجد نبوی کے قریب کچھ جگہ خالی تھی تو قبیلہ بنو سلمہ نے ادھر منتقل ہونے کا ارادہ کیا، جب نبی ﷺ کے علم میں یہ بات آئی تو آپ ؐ نے انہیں مسجد کے قریب منتقل ہونے سے روک دیا اور فرمایا دوبار ’’ تمہارے گھر اگرچہ دور ہیں ، لیکن وہیں رہو ، جتنے قدم تم چل کر آتے ہو وہ لکھ لیے جاتے ہیں۔اسی طرح حضرت مولانا شیخ الہند محمود حسن صاحب اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب کی تشریح کے مطابق ’’ نیک و بد اعمال جو آگے بھیج چکے اور بعض اعمال کے اچھے یا برے اثرات یا نشان پیچھے چھوڑے۔ مثلاً کوئی کتاب تصنیف کی یا علم سکھلایا یا عمارت بنائی یا کوئی رسم ڈالی نیک یا بد، سب اس میں داخل ہیں بلکہ الفاظ کے عموم میں وہ نشانات قدم بھی شامل ہوسکتے ہیں جو کسی عبادت کے لئے چلتے وقت زمین پر پڑ جاتے ہیں۔یعنی بعض احادیث صحیحہ کے مطابق ’’ جس طرح تمام اعمال و آثار وقوع کے بعد ضابطہ کے موافق لکھے جاتے ہیں ، قبل از وقوع بھی ایک ایک چیزلوح محفوظ میں لکھ دی جاتی ہے اور وہ لکھنا بھی محض انتظامی ضوابط و مصالح کی بنیاد پر ہے ورنہ اللہ کے علم قدیم میں ہر چھوٹی بڑی چیز پہلے سے موجود ہے ،اسی کے موافق لوح محفوظ میں نقل کی جاتی ہے۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے ’’ تفہیم القرآن ‘‘ میں کچھ اس طرح تشریح کی ہے ’’ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا نامہ اعمال تین قسم کے اندراجات پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ ہر شخص جو کچھ بھی اچھا یا برا عمل کرتا ہے وہ اللہ کے دفتر میں لکھ لیا جاتا ہے ۔دوسرے اپنے گرد و پیش کی اشیاء اور خود اپنے جسم کے اعضاء پر جو نقوش(Impression) بھی انسان مرتسم کرتا ہے وہ سب کے سب ثبت ہوجاتے ہیں ۔تیسرے مرنے کے بعد اپنی آئندہ نسل پر، اپنے معاشرے پر اور پوری انسانیت پر اپنے اچھے اور برے اعمال کے جو اثرات وہ چھوڑ گیاہے وہ جس وقت تک اور جہاں تک کار آمد رہیں گے وہ سب اس کے حساب میں لکھے جاتے رہیں گے‘‘اللہ تعالیٰ انسان کے انہیں اعمال کی بنیاد پر جو کچھ بھی لکھواتا یا ریکارڈ کراتا جارہا ہے۔وہ سب کے سب روز حشر ان کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی؟اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے اور جب آسمان کا پردہ ہٹایا جائے گا اور جہنم دہکا دی جائے گی اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی، اس وقت ہر شخص کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا لے کر آیاہے؟یعنی دنیا میں ریکارڈ کئے گئے ثبوت پیش کردیے جائیں گے۔ سورہ انفطار میں ہے ’’ جب قبریں کھول دی جائیں گی اس وقت ہر شخص کو اس کا اگلا پچھلا سب کیا دھرا معلوم ہوجائے گا‘‘اس کا جواب خود قرآن کریم دیتا ہے ’’ اس روز( قیامت کے روز) وہ (زمین) اپنے حالات بیان کرے گی کیونکہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہے ‘‘اگر چند جملوں کو جوڑ کر پڑھیں جیسے ’’ جب اعمال نامے کھولے جائیں گے‘‘ یا ’’ ہر شخص کو اگلا پچھلا‘‘ سب کیا دھرا معلوم ہوجائے گا‘‘ یا پھر ’’ زمین اپنے اوپر گزرے تمام حالات کو بیان کرے گی‘‘ تو ذہن میں یہ خیال قدرتی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار یہ کیسے؟یہ سب کچھ خود بخود کیسے ہوتا چلا جائے گا۔ اس کا جواب بھی قرآن کریم خود دیتا ہے۔ سورہ انفطار میں کہا گیا ’’ ہرگز نہیں بلکہ (اصل بات یہ ہے کہ ) تم لوگ جزا اور سزا کو جھٹلاتے ہو حالانکہ تم پر نگراں مقرر ہیں۔ ایسے معزز کاتب جو تمہارے ہر فعل کو جانتے ہیں‘‘ ۔سورہ ق میں ہے کہ اللہ کے حبیب کے ذریعہ یہ بات آشکا ر ہوئیہے کہ ’’ زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ نکالتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ہمارے (اللہ) پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے‘‘ ۔سورۃ الطارق میں کہا گیا ’’ قسم ہے آسمان اور رات کو نمودار ہونے والے کی، اور تم کیا جانو کہ وہ رات کو نمودار ہونے والا کیا ہے؟چمکتا ہوا تارا۔ کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کے اوپر کوئی نگہبان (ستارہ)نہ ہو‘‘غالباً یہی نگہبان خدا کے حکم سے سب کچھ ریکارڈ کرتا ہے ۔ مذکورہ بالا تمام آیتوں کی سچائی کی تصدیق اور توثیق جدید سائنسی تحقیقات کرہی ہیں ۔
must be read
ReplyDelete