بارش کی بوندوں سے سخت چوٹیں آ سکتی تھیں |
۔۔۔۔گزشتہ سے پیوستہ
وصی احمد نعمانی 
گزشتہمضمون میں قارئین حضرات نے ملاحظہ کیاہے کہ پانی کی بوندیں آسمان سے 1200 میٹر سے 10000 میٹر تک کی بلندی سے زمین پر گرتی ہیں، اس کا قطرہ لگ بھگ اعشاریہ ایک یا اعشاریہ صفر دو ملی میٹر کی گولائی کا ہوتا ہے۔ اگر پانی کی بوند کے وزن اور گولائی کے برابر اسی بلندی سے کسی چیز کو زمین پر گرایا جائے تو زمین پر آتے آتے اس چیز کی رفتار 558 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوجائے گی، لیکن پانی کی بوندیں جیسے جیسے اس بلندی سے گر کر زمین تک پہنچتی ہیں تو اس کی رفتار صرف 8 سے 10 کلو میٹر فی گھنٹہ کی ہوجاتی ہے یعنی پانی کی بوندیں نہایت آہستہ سے زمین پر گرتی ہیں جو زمین پر رہنے والے جانداروں کو شدید چوٹ سے بچاتی ہیں۔ اسی طرح پانی کی بوند کے وزن کے برابر کوئی دوسری ٹھوس چیز بارہ سو میٹر یا دس ہزار میٹر کی بلندی سے زمین پر گرائی جائے تو زمین پر اس کی مار یا چوٹ اتنی ہی ہوگی، جتنی مار یا چوٹ اس باٹ یا وزن دار چیز سے ہوگی، جو 15 سینٹی میٹر کی بلندی سے یا 110 سینٹی میٹر کی بلندی سے گرائی جائے اور وہ وزنی چیز ایک کلو گرام کے برابر ہو۔ لیکن یہ خدا کی قدرت ہے کہ وہ ایک سکینڈ میں 16 ملین ٹن پانی زمین پر بوندوں کی شکل میں گراتا ہے مگر چوٹ بالکل نہیں لگتی ہے، بلکہ بارش کی بوندوں میں بچے اور بڑوں کو بھیگنے میں مدد ملتی ہے۔
اگر خدا کی کرشمہ سازی پانی کو بوندوں کی شکل میں برسانے میں کارفرما نہیں ہوتی تو ہر بوند زمین پر 558 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گرتی اور زمین کی ساری چیزوں کو نیست و نابود کردیتی، کیوں کہ ہر بوند زمین کو زبردست چوٹ پہنچاتی اور ایک کلو گرام کی کسی وزنی چیز سے 15 سینٹی میٹر کی بلندی یا 110 سینٹی میٹر کی بلندی سے چوٹ پہنچانے کے مترادف ہوتا۔ کسی جاندار چیز کا نام و نشان نہیں ہوتا، کوئی پیڑ یا پودا باقی نہیں بچتا۔ یہ ایک سائنسی تجزیہ ہے جو پانی کی بوندوں اور اسی کے وزن یا جسامت کی دوسری ٹھوس چیز کے زمین پر گرنے سے تباہی کے ثبوت پیش کرتا ہے۔ سائنس کے اس تحقیقی نتائج کی روشنی میں کعبہ شریف پر ابرہہ کی فوج کے ذریعہ حملہ کرنے کے واقعہ کو سامنے رکھ کر اور چڑیوں کے ذریعہ اپنی چونچوں اور پنجوں میں کنکریاں دبا کر انہیں نیچے گرانے کا محاسبہ اور تجزیہ کرتے ہیں تو آج کی سائنس ببانگ دہل اس واقعہ کو درست، سچ اور حقیقت پر مبنی قرار دیتی ہے۔ آئیے اس اہم اور تاریخی واقعہ کا سرسری جائزہ لینے کی کوشش کریں اور سائنسی اعتبار سے غور کریں کہ کس طرح معمولی چڑیوں کے جھنڈ نے چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے ابرہہ کے ہاتھیوں پر اور اس کی فوج پر حملہ کر کے ان سب کا بھرتا بنا دیا۔
ابرہہ جو شہنشاہ وقت تھا اس نے بہانہ بنا کر کعبہ شریف کو منہدم کرنے اور اس کے نام و نشان کو مٹانے کا تہیہ کرلیا تھا کیوں کہ اس کے پاس رپورٹ پہنچی تھی کہ کعبہ کے ماننے والوں نے اس کے کلیسا کی توہین کی ہے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے ابرہہ نے کعبہ کو ڈھانے کا فیصلہ کرلیا اور 570 یا 571 عیسوی میں ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ یا بہ روایت دیگر نو ہاتھی لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں پہلے یمن کے سردار ذونفر نے عربوں کا ایک لشکر جمع کرکے ابرہہ کی مزاحمت کی، مگر وہ شکست کھا کر گرفتار کرلیا گیا۔ ابرہہ جب طائف کے قریب پہنچا تو بنی ثقیف نے بھی اپنے اندر مقابلہ کی طاقت نہ پا کر ابرہہ سے پناہ حاصل کرلی۔ جب مکہ تین کوس رہ گیا تو اس کی ہمت زیادہ بڑھنے لگی۔ ابرہہ اپنے ہم نواؤں کی مدد سے قریش کے بہت سے مویشی کو لوٹ کر لے گیا۔ ان لوٹے ہوئے مویشیوں میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے بھی دو سو اونٹ تھے۔ ابرہہ نے مسلمانوں کو پیغام دیا کہ وہ ان سے کوئی دشمنی نہیں رکھتا ہے۔ وہ تو صرف کعبہ کو ڈھانے آیا ہے۔ اس نے اپنے ایلچی کو کہا کہ وہ عرب کے سردار کو پکڑ کر اس کے سامنے حاضر کرے۔ مکہ کے سب سے بڑے سردار حضرت عبدالمطلب تھے۔ وہ طلب کیے گئے۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ ہم ابرہہ سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کا گھر ہے، وہ چاہے گا تو اپنے گھر کو بچالے گا۔ حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ سے کہا کہ میرے جو اونٹ پکڑ لیے گئے ہیں، وہ واپس کردیے جائیں۔ اس مانگ پر ابرہہ نے کہا کہ آپ کی ذات سے اور شخصیت سے بے حد متاثر ہوا تھالیکن آپ کی صرف اونٹوں کی واپسی کی مانگ نے ہمیں آپ کے بارے میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور کردیا اور میری نگاہ سے آپ کو گرادیا۔ آپ صرف اپنے اونٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ گھر جو آپ کا اور آپ کے دین آبائی کا مرجع ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ہیں۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا ’’میں تو صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور انہی کے بارے میں آپ سے درخواست کر رہا ہوں۔ رہا یہ گھر تو اس کا ایک رب ہے، وہ اس کی حفاظت خود کرے گا۔‘‘
اس بات پر ابرہہ نے کہا کہ وہ اس کو (کعبہ) مجھ سے نہیں بچاسکے گا۔ عبدالمطلب نے کہا ’’آپ جانیں اور وہ جانے‘‘، یہ کہہ کر وہ ابرہہ کے پاس سے اٹھ گئے اور اپنے اونٹ واپس لے گئے۔ عبدالمطلب نے ایک روایت کے مطابق ابرہہ سے کہا ’’یہ اللہ کا گھر ہے۔ آج تک اس نے کسی کو اس پر مسلط نہیں ہونے دیا ہے۔‘‘ ابرہہ نے جواب دیا ہم اس کو منہدم کیے بغیر نہیں پلٹیںگے۔ عبدالمطلب نے کہا آپ جو چاہیں ہم سے لے لیں اور واپس چلے جائیں، مگر ابرہہ نے انکار کردیا اور عبدالمطلب کو پیچھے چھوڑ کر لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم دے دیا۔
لشکر سے واپس آکر عبدالمطلب نے قریش والوں سے کہا کہ اپنے بال بچوں کو لے کر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ہو اور پھر چند دیگر سرداروں کے ساتھ حرم میں داخل ہوئے اور کعبہ کی کنڈی پکڑ کر رو رو کر اس کی حفاظت کے لیے خدا سے دعائیں کیں۔ پھر اپنے ساتھیوں کے ساتھ حفاظت کی غرض سے پہاڑوں میں چلے گئے۔
دوسرے روز ابرہہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا۔ مگر اس کا ایک خاص ہاتھی جس کا نام ’’محمود‘‘ تھا وہ تو آگے آگے تھا، لیکن یکا یک بیٹھ گیا۔ اس کو بہت تبر مارے گئے، آنکھوں سے کچوکے دیے گئے، یہاں تک کہ اس کو زخمی کردیا گیا۔ مگر وہ نہ ہلا اسے کعبہ کے رخ کے علاوہ کسی طرف بھی ہانکا جاتا تھا وہ چل پڑتا تھا۔ مگر کعبہ کی طرف اس پر حملہ کی غرض سے ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا۔ یہ سب خدا کی کرشمہ سازی تھی کہ ایک جانور کے دل میں بھی احترام کعبہ دے رکھا تھا۔ اس نے محمود نام کی مناسبت کی لاج رکھی۔
اتنے میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی چونچوں میں سنگریزے لیے ہوئے آئے اور انہوں نے اس لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کردی۔ جس پر بھی کنکر گرتے تھے، اس کا جسم گلنا شروع ہوجاتا تھا۔ محمد بن اسحق اور عکرمہ کی روایت ہے کہ یہ چیچک کا مرض تھا، ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ جس پر کوئی کنکری گرتی اسے سخت کھجلی لاحق ہوجاتی اور کھجاتے ہی جلد پھٹتی اور گوشت جھڑنا شروع ہوجاتا۔ ابن عباسؓ کی دوسری روایت ہے کہ گوشت اور خون پانی کی طرح بہنے لگتا اور ہڈیاں نکل آتی تھیں۔ خود ابرہہ کے ساتھ بھی یہی ہوا، اس کا جسم ٹکرے ٹکڑے ہو کر گر رہا تھا اور جہاں سے کوئی ٹکڑا گرتا وہاں سے پیپ اور لہو بہنے لگتا تھا۔ افراتفری میں وہ یمن کی طرف بھاگنے لگے۔ اس بھگدڑ میں یہ لوگ گر گر کر مرتے رہے۔
جس سال یہ واقعہ پیش آیا، اہل عرب اسے عام الفیل(ہاتھیوں کا سال) کہتے ہیں اور اسی سال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ متفقہ طور پر یہ خیال ہے کہ یہ واقعہ محرم کے ماہ میں پیش آیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت ربیع الاول کے مہینہ میں ہوئی تھی۔ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ واقعہ فیل کے 50 دن کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اسی روز آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ گویا کہ یہ ایک آسمانی نشانی تھی، جو آپ کی آمد آمد پر ہوئی۔ مذکورہ بالا تاریخی واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چڑیوں نے اپنی چونچوں اور پنجوں سے جو کنکریاں ابرہہ کے ہاتھ پر گرائیں۔ اس کا وزن اتنا زیادہ تھا اور اس سے چوٹیں اتنی زبردست پڑتی تھیں کہ ہاتھیوں کے بھیس نکل گئے۔ یہ چڑیاں سبز اور زرد رنگ کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تھیں۔ ان عجیب و غریب پرندوں کے غول کے غول کنکریاں لشکر پر برسانے لگے۔خدا کی قدرت سے وہ کنکریاں یا پتھریاں بندوق کی گولی سے زیادہ کام کرتی تھیں، جسے لگتیں ایک طرف سے گھس کر دوسری طرف سے نکل جاتی تھیں اور عجیب طرح کا سمی مادہ چھوڑ جاتی تھیں، ان کنکریوں کی چوٹ سے ہاتھی اور فوجی چور چور ہوگئے۔
گویا کہ آج سائنسی اعتبار سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اگر کوئی ٹھوس چیز جس کی جسامت اور وزن پانی کی بوند کی جسامت اور وزن کے برابر ہو اور وہ کسی جاندار پر گرے تو اسے اتنی چوٹ پہنچے گی کہ اس کا جسم چور چور ہوجائے گا۔ سائنسی تجزیہ کے مطابق ہاتھی جیسے وزنی اور بھاری جانور کی موت ایک مناسب دوری سے کنکری گرانے سے ہوسکتی ہے۔ جیسے ہوائی جہاز سے کوئی معمولی چڑیا بھی ٹکرا جائے تو اس کے چیتھڑے ہوجاتے ہیں۔ آج کے سائنسی نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن خدا کی کتاب ہے، کیوں کہ وہ باتیں جو اس میں مذکور ہیں، سائنس لاکھوں ہزاروں سال کی تحقیق و ریسرچ کے بعد اب بیان کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ آخر ان باتوں کو خدا کے علاوہ کون بتا سکتا ہے اور ثابت کرسکتا ہے۔
(جاری)
حوالہ جات
(1) تفہیم القرآن
(2) سائنس خداکے حضور میں
گزشتہمضمون میں قارئین حضرات نے ملاحظہ کیاہے کہ پانی کی بوندیں آسمان سے 1200 میٹر سے 10000 میٹر تک کی بلندی سے زمین پر گرتی ہیں، اس کا قطرہ لگ بھگ اعشاریہ ایک یا اعشاریہ صفر دو ملی میٹر کی گولائی کا ہوتا ہے۔ اگر پانی کی بوند کے وزن اور گولائی کے برابر اسی بلندی سے کسی چیز کو زمین پر گرایا جائے تو زمین پر آتے آتے اس چیز کی رفتار 558 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوجائے گی، لیکن پانی کی بوندیں جیسے جیسے اس بلندی سے گر کر زمین تک پہنچتی ہیں تو اس کی رفتار صرف 8 سے 10 کلو میٹر فی گھنٹہ کی ہوجاتی ہے یعنی پانی کی بوندیں نہایت آہستہ سے زمین پر گرتی ہیں جو زمین پر رہنے والے جانداروں کو شدید چوٹ سے بچاتی ہیں۔ اسی طرح پانی کی بوند کے وزن کے برابر کوئی دوسری ٹھوس چیز بارہ سو میٹر یا دس ہزار میٹر کی بلندی سے زمین پر گرائی جائے تو زمین پر اس کی مار یا چوٹ اتنی ہی ہوگی، جتنی مار یا چوٹ اس باٹ یا وزن دار چیز سے ہوگی، جو 15 سینٹی میٹر کی بلندی سے یا 110 سینٹی میٹر کی بلندی سے گرائی جائے اور وہ وزنی چیز ایک کلو گرام کے برابر ہو۔ لیکن یہ خدا کی قدرت ہے کہ وہ ایک سکینڈ میں 16 ملین ٹن پانی زمین پر بوندوں کی شکل میں گراتا ہے مگر چوٹ بالکل نہیں لگتی ہے، بلکہ بارش کی بوندوں میں بچے اور بڑوں کو بھیگنے میں مدد ملتی ہے۔
اگر خدا کی کرشمہ سازی پانی کو بوندوں کی شکل میں برسانے میں کارفرما نہیں ہوتی تو ہر بوند زمین پر 558 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گرتی اور زمین کی ساری چیزوں کو نیست و نابود کردیتی، کیوں کہ ہر بوند زمین کو زبردست چوٹ پہنچاتی اور ایک کلو گرام کی کسی وزنی چیز سے 15 سینٹی میٹر کی بلندی یا 110 سینٹی میٹر کی بلندی سے چوٹ پہنچانے کے مترادف ہوتا۔ کسی جاندار چیز کا نام و نشان نہیں ہوتا، کوئی پیڑ یا پودا باقی نہیں بچتا۔ یہ ایک سائنسی تجزیہ ہے جو پانی کی بوندوں اور اسی کے وزن یا جسامت کی دوسری ٹھوس چیز کے زمین پر گرنے سے تباہی کے ثبوت پیش کرتا ہے۔ سائنس کے اس تحقیقی نتائج کی روشنی میں کعبہ شریف پر ابرہہ کی فوج کے ذریعہ حملہ کرنے کے واقعہ کو سامنے رکھ کر اور چڑیوں کے ذریعہ اپنی چونچوں اور پنجوں میں کنکریاں دبا کر انہیں نیچے گرانے کا محاسبہ اور تجزیہ کرتے ہیں تو آج کی سائنس ببانگ دہل اس واقعہ کو درست، سچ اور حقیقت پر مبنی قرار دیتی ہے۔ آئیے اس اہم اور تاریخی واقعہ کا سرسری جائزہ لینے کی کوشش کریں اور سائنسی اعتبار سے غور کریں کہ کس طرح معمولی چڑیوں کے جھنڈ نے چھوٹی چھوٹی کنکریوں سے ابرہہ کے ہاتھیوں پر اور اس کی فوج پر حملہ کر کے ان سب کا بھرتا بنا دیا۔
ابرہہ جو شہنشاہ وقت تھا اس نے بہانہ بنا کر کعبہ شریف کو منہدم کرنے اور اس کے نام و نشان کو مٹانے کا تہیہ کرلیا تھا کیوں کہ اس کے پاس رپورٹ پہنچی تھی کہ کعبہ کے ماننے والوں نے اس کے کلیسا کی توہین کی ہے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے ابرہہ نے کعبہ کو ڈھانے کا فیصلہ کرلیا اور 570 یا 571 عیسوی میں ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ یا بہ روایت دیگر نو ہاتھی لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں پہلے یمن کے سردار ذونفر نے عربوں کا ایک لشکر جمع کرکے ابرہہ کی مزاحمت کی، مگر وہ شکست کھا کر گرفتار کرلیا گیا۔ ابرہہ جب طائف کے قریب پہنچا تو بنی ثقیف نے بھی اپنے اندر مقابلہ کی طاقت نہ پا کر ابرہہ سے پناہ حاصل کرلی۔ جب مکہ تین کوس رہ گیا تو اس کی ہمت زیادہ بڑھنے لگی۔ ابرہہ اپنے ہم نواؤں کی مدد سے قریش کے بہت سے مویشی کو لوٹ کر لے گیا۔ ان لوٹے ہوئے مویشیوں میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے بھی دو سو اونٹ تھے۔ ابرہہ نے مسلمانوں کو پیغام دیا کہ وہ ان سے کوئی دشمنی نہیں رکھتا ہے۔ وہ تو صرف کعبہ کو ڈھانے آیا ہے۔ اس نے اپنے ایلچی کو کہا کہ وہ عرب کے سردار کو پکڑ کر اس کے سامنے حاضر کرے۔ مکہ کے سب سے بڑے سردار حضرت عبدالمطلب تھے۔ وہ طلب کیے گئے۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ ہم ابرہہ سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کا گھر ہے، وہ چاہے گا تو اپنے گھر کو بچالے گا۔ حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ سے کہا کہ میرے جو اونٹ پکڑ لیے گئے ہیں، وہ واپس کردیے جائیں۔ اس مانگ پر ابرہہ نے کہا کہ آپ کی ذات سے اور شخصیت سے بے حد متاثر ہوا تھالیکن آپ کی صرف اونٹوں کی واپسی کی مانگ نے ہمیں آپ کے بارے میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور کردیا اور میری نگاہ سے آپ کو گرادیا۔ آپ صرف اپنے اونٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ گھر جو آپ کا اور آپ کے دین آبائی کا مرجع ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ہیں۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا ’’میں تو صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور انہی کے بارے میں آپ سے درخواست کر رہا ہوں۔ رہا یہ گھر تو اس کا ایک رب ہے، وہ اس کی حفاظت خود کرے گا۔‘‘
اس بات پر ابرہہ نے کہا کہ وہ اس کو (کعبہ) مجھ سے نہیں بچاسکے گا۔ عبدالمطلب نے کہا ’’آپ جانیں اور وہ جانے‘‘، یہ کہہ کر وہ ابرہہ کے پاس سے اٹھ گئے اور اپنے اونٹ واپس لے گئے۔ عبدالمطلب نے ایک روایت کے مطابق ابرہہ سے کہا ’’یہ اللہ کا گھر ہے۔ آج تک اس نے کسی کو اس پر مسلط نہیں ہونے دیا ہے۔‘‘ ابرہہ نے جواب دیا ہم اس کو منہدم کیے بغیر نہیں پلٹیںگے۔ عبدالمطلب نے کہا آپ جو چاہیں ہم سے لے لیں اور واپس چلے جائیں، مگر ابرہہ نے انکار کردیا اور عبدالمطلب کو پیچھے چھوڑ کر لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم دے دیا۔
لشکر سے واپس آکر عبدالمطلب نے قریش والوں سے کہا کہ اپنے بال بچوں کو لے کر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ہو اور پھر چند دیگر سرداروں کے ساتھ حرم میں داخل ہوئے اور کعبہ کی کنڈی پکڑ کر رو رو کر اس کی حفاظت کے لیے خدا سے دعائیں کیں۔ پھر اپنے ساتھیوں کے ساتھ حفاظت کی غرض سے پہاڑوں میں چلے گئے۔
دوسرے روز ابرہہ مکہ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا۔ مگر اس کا ایک خاص ہاتھی جس کا نام ’’محمود‘‘ تھا وہ تو آگے آگے تھا، لیکن یکا یک بیٹھ گیا۔ اس کو بہت تبر مارے گئے، آنکھوں سے کچوکے دیے گئے، یہاں تک کہ اس کو زخمی کردیا گیا۔ مگر وہ نہ ہلا اسے کعبہ کے رخ کے علاوہ کسی طرف بھی ہانکا جاتا تھا وہ چل پڑتا تھا۔ مگر کعبہ کی طرف اس پر حملہ کی غرض سے ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا۔ یہ سب خدا کی کرشمہ سازی تھی کہ ایک جانور کے دل میں بھی احترام کعبہ دے رکھا تھا۔ اس نے محمود نام کی مناسبت کی لاج رکھی۔
اتنے میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنی چونچوں میں سنگریزے لیے ہوئے آئے اور انہوں نے اس لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کردی۔ جس پر بھی کنکر گرتے تھے، اس کا جسم گلنا شروع ہوجاتا تھا۔ محمد بن اسحق اور عکرمہ کی روایت ہے کہ یہ چیچک کا مرض تھا، ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ جس پر کوئی کنکری گرتی اسے سخت کھجلی لاحق ہوجاتی اور کھجاتے ہی جلد پھٹتی اور گوشت جھڑنا شروع ہوجاتا۔ ابن عباسؓ کی دوسری روایت ہے کہ گوشت اور خون پانی کی طرح بہنے لگتا اور ہڈیاں نکل آتی تھیں۔ خود ابرہہ کے ساتھ بھی یہی ہوا، اس کا جسم ٹکرے ٹکڑے ہو کر گر رہا تھا اور جہاں سے کوئی ٹکڑا گرتا وہاں سے پیپ اور لہو بہنے لگتا تھا۔ افراتفری میں وہ یمن کی طرف بھاگنے لگے۔ اس بھگدڑ میں یہ لوگ گر گر کر مرتے رہے۔
جس سال یہ واقعہ پیش آیا، اہل عرب اسے عام الفیل(ہاتھیوں کا سال) کہتے ہیں اور اسی سال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ متفقہ طور پر یہ خیال ہے کہ یہ واقعہ محرم کے ماہ میں پیش آیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت ربیع الاول کے مہینہ میں ہوئی تھی۔ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ واقعہ فیل کے 50 دن کے بعد حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اسی روز آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ گویا کہ یہ ایک آسمانی نشانی تھی، جو آپ کی آمد آمد پر ہوئی۔ مذکورہ بالا تاریخی واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چڑیوں نے اپنی چونچوں اور پنجوں سے جو کنکریاں ابرہہ کے ہاتھ پر گرائیں۔ اس کا وزن اتنا زیادہ تھا اور اس سے چوٹیں اتنی زبردست پڑتی تھیں کہ ہاتھیوں کے بھیس نکل گئے۔ یہ چڑیاں سبز اور زرد رنگ کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تھیں۔ ان عجیب و غریب پرندوں کے غول کے غول کنکریاں لشکر پر برسانے لگے۔خدا کی قدرت سے وہ کنکریاں یا پتھریاں بندوق کی گولی سے زیادہ کام کرتی تھیں، جسے لگتیں ایک طرف سے گھس کر دوسری طرف سے نکل جاتی تھیں اور عجیب طرح کا سمی مادہ چھوڑ جاتی تھیں، ان کنکریوں کی چوٹ سے ہاتھی اور فوجی چور چور ہوگئے۔
گویا کہ آج سائنسی اعتبار سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اگر کوئی ٹھوس چیز جس کی جسامت اور وزن پانی کی بوند کی جسامت اور وزن کے برابر ہو اور وہ کسی جاندار پر گرے تو اسے اتنی چوٹ پہنچے گی کہ اس کا جسم چور چور ہوجائے گا۔ سائنسی تجزیہ کے مطابق ہاتھی جیسے وزنی اور بھاری جانور کی موت ایک مناسب دوری سے کنکری گرانے سے ہوسکتی ہے۔ جیسے ہوائی جہاز سے کوئی معمولی چڑیا بھی ٹکرا جائے تو اس کے چیتھڑے ہوجاتے ہیں۔ آج کے سائنسی نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن خدا کی کتاب ہے، کیوں کہ وہ باتیں جو اس میں مذکور ہیں، سائنس لاکھوں ہزاروں سال کی تحقیق و ریسرچ کے بعد اب بیان کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ آخر ان باتوں کو خدا کے علاوہ کون بتا سکتا ہے اور ثابت کرسکتا ہے۔
(جاری)
حوالہ جات
(1) تفہیم القرآن
(2) سائنس خداکے حضور میں
No comments:
Post a Comment