انسان کے عمل کی ریکارڈنگ زمین و آسمان میں ہو رہی ہے |
وصی احمد نعمانی
انسان کی انگلیوں اور پائوں کے نشانات کے ذریعہ ان کے اعمال نامہ کی ریکارڈنگ ہر لمحہ ہوتی رہتی ہے۔اللہ کی خدائی کے منکر یہ یقین کرتے ہیں کہ مرجانے اور ہڈیوں کے سڑ گل جانے کے بعد کس طرح انسان کو اللہ اپنے دعوے کے مطابق اپنے سامنے لا کھڑا کرے گا۔ اس کے جواب میں خود اللہ نے ارشاد فرمایا ہے ’’ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو اکٹھی نہ کرسکیں گے؟کیوں نہیں،ہم اس بات پر قادر ہیں کہ (پھر سے) اس کی انگلیوں کے پور پور تک درست کردیں‘‘(سورۃ القیامۃ)۔اسی طرح سورہ یٰس میں انسان کے عمل کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں ارشاد باری ہے ’’ یقینا ہم مُردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھ رہے ہیں جو انہوں نے آگے بھیجا اور جو انہوں نے پیچھے چھوڑا اور ہر چیز ہم نے درج کرلی ہے ایک کھلی کتاب میں ‘‘۔شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن اور شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے اس آیت کریمہ کی تشریح میں فرمایا ہے کہ ’’ وہ قدم کے نشانات بھی شامل ہوسکتے ہیں جو کسی عبادت کے لئے چلتے وقت زمین پر پڑ جاتے ہیں‘‘۔اس طرح بروز قیامت انسان کے اعمال کی گواہی ان کے الفاظ و اقوال کے ساتھ ان کے قدموں کے نشانات بھی دیں گے جن کی مکمل طور پر ریکارڈنگ زمین اور فضا میں کی جارہی ہے۔ سائنسی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ انگوٹھوں کے نشانات اور قدموں کے عکس زمین پر ،کاغذ یا کپڑوں پر یا جس جگہ بھی ثبت ہوتے ہیں وہ ایک اہم ثبوت ہوتے ہیں اس انسان کی مکمل شناخت کے لئے جن کے انگوٹھوں اور پائوں کے نشانات ہیں۔ ان نشانوں کی اہمیت کے بارے میں انسان کو انیسویں اور بیسویں صدی تک کچھ پتہ نہیں تھا مگر اس کی اہمیت اللہ نے قرآن کریم میں آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیان فرماکر قرآن کو فرمان الٰہی ہونے کا ثبوت قطعی فراہم کردیا تھا۔
انگوٹھا کے نشان کی اہمیت کا پتہ سب سے پہلے ایک انگریز سائنس داں Henry Faulds کے مقالہ کے ذریعہ 1880 میں ہوا جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ انگوٹھوں کے نشان زندگی میں کبھی بھی نہیں بدلتے ہیںاس تحقیق کی بنیاد پر 1884 میں پہلی بار ایک مجرم کو سزا ملی اور تب سے انگوٹھوں کے نشان کو قانون کی دنیا میں جرم کو ثابت کرنے اور اصلی خطاکار کا پتہ لگانے کا حتمی ثبوت مان لیا گیا ۔ 19صدی کے قبل دنیا یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ معمولی انگوٹھا کا نشان انسان کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے بہترین اور آخری ثبوت کی حیثیت رکھے گا۔ اسی لئے اللہ نے کہا ہے کہ ہڈیوں کو یکجا کرنے کی بات کرتے ہو۔ ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں کہ تمہاری انگلیوں کے نشان تک کو یا پور تک کو درست کردیں گے یعنی تمہارے تمام خطائوں کو تمہارے سامنے انگوٹھوں کے ثبوت کے ساتھ پیش کردیں گے کہ یہ سب تمہارا ہی کیا ہوا جرم ہے۔ انگوٹھا کے اس کرشمہ ساز ثبوت کے بارے میں سائنس نے تحقیق کرکے 1880 ہی میں پتہ لگا لیا تھا مگر قدموں کے نشانات بھی ایک حتمی ثبوت کا درجہ رکھتے ہیں اس کے بارے میں گیارہویں بارہویں صدی کی سائنسی تحقیق نے بتا دیا کہ انسان جب چلتا ہے تو اس کے قدموں کے نشانات جو لہروں کے ذریعہ چیزوں پر ثبت ہوتے ہیں وہ کسی اور کے قدموں کے نشان سے بالکل میل نہیں کھاتے ہیں یعنی انسان کے قدموں کے نشان ریکارڈ ہوتے ہیں ،منفرد ہوتے ہیں اور بدلتے نہیں ہیں۔ اس لئے خدانے کہا ہے کہ جو کچھ انسان مرنے کے قبل اپنے اعمال کو یکجا کرتا ہے وہ سب کے سب ریکارڈ کیے جاتے ہیں ۔ قرآنی آیات کی تفسیر میں یہ بات آتی ہے کہ انسان کے اعمال ان کے قدموں کے نشانات کے ذریعہ بھی یکجا ہوتے ہیں ،ریکارڈ ہوتے ہیں۔قدموں کے عکس کے بارے میں گزشتہ دنوں کافی اطلاعات شائع ہوئی ہیں جو قاری کی نگاہ سے گزری ہوں گی۔ملک اور بیرون ملک کے مختلف روزناموں اور جریدوں میں اس کی اطلاع شائع ہوئی ہے ۔سائنسی تحقیق کے مطابق ’’ چونکہ پسینوں کے غدود کی نالیاں برادمہ( Epidermis) کی ابھاروں کی چوٹیوں پر کھلتی ہیں اس لئے جب کسی ہموار چیزوں کو چھوا جاتا ہے تو اسی پر انگلیوں یا پائوں کے نشانات ثبت ہوجاتے ہیں مگر اب تو یہاں تک ثابت کیا جارہا ہے کہ انگلیوں،پائوں ،جسموں کی لہروں کے ذریعہ نشانات ثبت یا عکس درج ہوجاتے ہیں۔میڈیکل ویب سائٹ MED کی رپورٹ کے مطابق جاپان کی ’’ شن شو یونیورسٹی‘‘ کے ڈاکٹر جناب ’ تادپاتا سکی‘ جو اس طرح کی تحقیق کے اہم فرد ہیں ،فرماتے ہیں کہ ’’ پائوں ہمارے جسم کا ایسا واحد حصہ ہیں جو چلنے کے دوران اپنے ماحول سے براہ راست رابطے میں آتے ہیں۔چنانچہ معجزاتی طور پر پائوں اپنی مخصوص چال کے نشان زمین پر منتقل کرتے ہیں ۔شاید اسی وجہ سے ہم اپنے جاننے والوں کو ان کی چال کی بنا پر دور سے ہی پہچان لیتے ہیں۔چاہے وہ دور سے صاف طور پر دکھائی بھی نہیں دے رہے ہوں ۔ ماہرین نے اپنے تجربات کے دوران 104 انسانوں کو ’فٹ میٹ طرز کے ایسے پلیٹ فارم پر سے گزرنے کو کہا جس میں ہزار وں سینسر نصب کیے گئے تھے۔انہوں نے ہر انسان کے دس قدموں کا ڈیٹا ریکارڈ کرکے اس کا تجزیہ کیا جس سے پتہ چلا کہ ہر شخص کے قدموں کا الیکٹرانک گراف دوسرے شخص سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ڈاکٹر پاتا سکی نے اپنے ریسرچ میں کہا ہے کہ 104 افراد کے ایک ہزار چالیس قدموں کے نشانات سے جو نتائج حاصل ہوئے ہیں ان میں صرف 3 غلطیاں تھیں جسے سُدھارا جاسکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ دو مختلف افراد کے پائوں کے نمبر، جسمانی ساخت اور وزن چاہے ایک جیسا ہی کیوں نہ ہو مگر ان کے پائوں زمین پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف انداز میں دبائو ڈالتے ہیں۔ اب تک کے تجربات میں ماہرین نے ننگے پائوں چال کا الیکٹرانک گراف حاصل کیا ہے لیکن ٹیلی گراف میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بر طانیہ کی ’لیور پول یونیورسٹی ‘ کے الیکٹریکل انجینئرنگ کے سائنسداں ڈاکٹر جان گولر ماس کہتے ہیں کہ انہیں توقع ہے کہ جلد ہی ایک ایسا سافٹ ویر تیار کر لیا جائے گا جس سے جوتے اتارنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی،کیونکہ جوتے کا سول اور اس کا ڈیزائن چاہے ایک جیسا ہی کیوں نہ ہو، زمین پر اس کے دبائو کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کس کے پائوں میں ہے۔ان سائنسدانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ہر انسان زمین پر ایک مخصوص انداز میں اپنا قدم رکھتا ہے جس کی وجہ سے مختلف پائوں زمین پر الگ الگ انداز میں الگ الگ دبائو ڈال کر بالکل ایک دوسرے سے منفرد نتائج پیدا کرتے ہیں۔انسان کے پائوں میں (تلوے میں)ایک لاکھ سے زیادہ ایسے مختلف حصے ہیں جن کی وجہ سے زمین پر پائوں ڈالنے کا دبائو الگ الگ ڈھنگ سے اور طریقہ سے پڑتا ہے اور ان کی نشانی محفوظ ہوجاتی ہیں جنہیں دوبارہ ریکارڈ کے ذریعہ دیکھا جاسکتا ہے اور اس آدمی کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے جدید سائنسی دور میں چال اور قدموں کے نشانات کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے اور کسی بھی فرد واحد کے قدموں کے نشان کے ریکارڈ سے جسمانی طور پر انسانی کو روکے بغیر اور انہیں چیک کئے بنا اس کی شناخت ہوسکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پرانے زمانے میں کھوجی یا تفتیش کنندہ مجرموں کی تلاش میں انسانوں اور جانوروں کے پائوں کے نشانات سے کام لیتے تھے اور مجرموں کے راہ گذر کا پتہ لگا لیتے تھے۔ کھوجی یا جاسوس اتنے ماہر ہوتے تھے کہ وہ جانوروں کے کھروں کے نشان دیکھ کر ان کے بارے میں غیر معمولی حد تک درست اندازہ لگالیا کرتے تھے۔مثلاً یہ کہ گھوڑے ، ہرن یا کسی دوسرے جانور کی جسامت کیسی ہے ،وزن کتنا ہے،اس کے چلنے کا قدرتی انداز کیا ہے اور یہ کہ اس پر سوار شخص اسے کس انداز میں چلانے کی یا دوڑانے کی کوشش کررہا تھامگر یہ نشانات تو زمین پر بظاہر نظر آجاتے تھے اب سائنس نے تحقیق کرکے یہ بتادیا ہے کہ انسان کی جسمانی لہریں فضا میں ثبت ہوکر اپنا ثبوت عکس کر دیتی ہیں جنہیں ریکارڈ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اس وقت حساس مقامات پر مشکوک افراد کی نگرانی کے لئے ویڈیو کیمرے وغیرہ لگا کر مجرموں کا پتہ لگا یا جاتا ہے۔ ’ڈاکٹر گرلرماس‘ کا کہنا ہے کہ اگر ایسے حساس مقامات کے راستوں یا گزرگاہوں پر پریشر پوائنٹ ریکارڈ کرنے والے فٹ میٹ بچھادیے جائیں تو وہاں سے گزرنے والے ہر شخص کی شناخت کمپیوٹر اپنے ڈیٹا ریکارڈ کرکے اطلاع بہم پہنچا دے گا اور اس طرح مجرم کی اپنی ذاتی اطلاع کے بغیر یا ان کو بھنک لگے بغیر انہیں گرفت میں لیا جاسکتا ہے یعنی انسان جہاں کہیں بھی جاتا ہے ، اٹھتا بیٹھتا ہے ،چلتا پھرتا ہے۔ ان تمام جگہوں پر اپنے پائوں کے نشانات کے ذریعہ اپنے حق میں یا اپنی مخالفت میں ثبوت پیدا کرتا جاتا ہے ۔ یہ تمام ثبوت زمین پر اور فضائوں میں ثبت ہوجاتے ہیں لہٰذا قرآنی تشریح کے مطابق انسان جو کچھ عمل آگے بھیجتا ہے یا جو کچھ عمل وہ پیچھے چھوڑتا ہے وہ ب کے سب ایک محفوظ کتاب میں درج کر لئے جاتے ہیں ۔اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ بندہ جو کچھ بولتا ہے ،عمل کرتا ہے یا جہاں جہاں اپنے قدموں سے چل کر جاتا ہے وہ سب کے سب ریکارڈ ہورہے ہیں اور یہ تمام ثبوت انسان کے حق میں یا ان کے خلاف ریکارڈ کی شکل میں بروز حشر پیش کیے جائیں گے۔
سائنس نے اس بات کی توثیق کردی ہے کہ (الف) انگوٹھوں کے نشانات ایک مکمل ثبوت کی حیثیت رکھتے ہیں (ب)قدموں کے نشان بالکل نا قابل تنسیخ ثبوت ہیں (ج) انسان کے تمام حرکات و سکنات کی ریکارڈنگ ہورہی ہے (د) زمین اور فضا میں تمام ثبوت ریکارڈ کیے جارہے ہیں۔ اللہ نے اپنی کتاب میں فرمادیا ہے کہ ہر ایک ذی روح کے لئے نگراں اور محافظ مقرر ہے جو ان کی کارکردگی کا لیکھا جوکھا تیار کرتا رہتا ہے۔ زمین انہیں ریکارڈ کو اپنی زبان سے خدا کے حضور بیان کرے گی ،جیسا کہ سورہ زلزال میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ سورہ طارق میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کی تشریح کے مطابق انسان کا ایک ایک لمحہ ریکارڈ ہورہا ہے۔ہم نے مکمل ایمان کی وجہ سے اندیکھے خدا کے غیب کی تمام باتوں پر یقین کیا ہے۔یہی ایمانی تقاضہ ہے ۔وہ جو ان سب باتوں پر یقین نہیں رکھتے ہیں ۔ان کے سامنے سائنسی تحقیق ببانگ دہل اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ قرآن کریم اللہ اور صرف اللہ کی کتاب ہے جو درست اور سچ ہے ۔ g
انسان کی انگلیوں اور پائوں کے نشانات کے ذریعہ ان کے اعمال نامہ کی ریکارڈنگ ہر لمحہ ہوتی رہتی ہے۔اللہ کی خدائی کے منکر یہ یقین کرتے ہیں کہ مرجانے اور ہڈیوں کے سڑ گل جانے کے بعد کس طرح انسان کو اللہ اپنے دعوے کے مطابق اپنے سامنے لا کھڑا کرے گا۔ اس کے جواب میں خود اللہ نے ارشاد فرمایا ہے ’’ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو اکٹھی نہ کرسکیں گے؟کیوں نہیں،ہم اس بات پر قادر ہیں کہ (پھر سے) اس کی انگلیوں کے پور پور تک درست کردیں‘‘(سورۃ القیامۃ)۔اسی طرح سورہ یٰس میں انسان کے عمل کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں ارشاد باری ہے ’’ یقینا ہم مُردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھ رہے ہیں جو انہوں نے آگے بھیجا اور جو انہوں نے پیچھے چھوڑا اور ہر چیز ہم نے درج کرلی ہے ایک کھلی کتاب میں ‘‘۔شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن اور شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے اس آیت کریمہ کی تشریح میں فرمایا ہے کہ ’’ وہ قدم کے نشانات بھی شامل ہوسکتے ہیں جو کسی عبادت کے لئے چلتے وقت زمین پر پڑ جاتے ہیں‘‘۔اس طرح بروز قیامت انسان کے اعمال کی گواہی ان کے الفاظ و اقوال کے ساتھ ان کے قدموں کے نشانات بھی دیں گے جن کی مکمل طور پر ریکارڈنگ زمین اور فضا میں کی جارہی ہے۔ سائنسی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ انگوٹھوں کے نشانات اور قدموں کے عکس زمین پر ،کاغذ یا کپڑوں پر یا جس جگہ بھی ثبت ہوتے ہیں وہ ایک اہم ثبوت ہوتے ہیں اس انسان کی مکمل شناخت کے لئے جن کے انگوٹھوں اور پائوں کے نشانات ہیں۔ ان نشانوں کی اہمیت کے بارے میں انسان کو انیسویں اور بیسویں صدی تک کچھ پتہ نہیں تھا مگر اس کی اہمیت اللہ نے قرآن کریم میں آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیان فرماکر قرآن کو فرمان الٰہی ہونے کا ثبوت قطعی فراہم کردیا تھا۔
انگوٹھا کے نشان کی اہمیت کا پتہ سب سے پہلے ایک انگریز سائنس داں Henry Faulds کے مقالہ کے ذریعہ 1880 میں ہوا جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ انگوٹھوں کے نشان زندگی میں کبھی بھی نہیں بدلتے ہیںاس تحقیق کی بنیاد پر 1884 میں پہلی بار ایک مجرم کو سزا ملی اور تب سے انگوٹھوں کے نشان کو قانون کی دنیا میں جرم کو ثابت کرنے اور اصلی خطاکار کا پتہ لگانے کا حتمی ثبوت مان لیا گیا ۔ 19صدی کے قبل دنیا یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ معمولی انگوٹھا کا نشان انسان کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے بہترین اور آخری ثبوت کی حیثیت رکھے گا۔ اسی لئے اللہ نے کہا ہے کہ ہڈیوں کو یکجا کرنے کی بات کرتے ہو۔ ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں کہ تمہاری انگلیوں کے نشان تک کو یا پور تک کو درست کردیں گے یعنی تمہارے تمام خطائوں کو تمہارے سامنے انگوٹھوں کے ثبوت کے ساتھ پیش کردیں گے کہ یہ سب تمہارا ہی کیا ہوا جرم ہے۔ انگوٹھا کے اس کرشمہ ساز ثبوت کے بارے میں سائنس نے تحقیق کرکے 1880 ہی میں پتہ لگا لیا تھا مگر قدموں کے نشانات بھی ایک حتمی ثبوت کا درجہ رکھتے ہیں اس کے بارے میں گیارہویں بارہویں صدی کی سائنسی تحقیق نے بتا دیا کہ انسان جب چلتا ہے تو اس کے قدموں کے نشانات جو لہروں کے ذریعہ چیزوں پر ثبت ہوتے ہیں وہ کسی اور کے قدموں کے نشان سے بالکل میل نہیں کھاتے ہیں یعنی انسان کے قدموں کے نشان ریکارڈ ہوتے ہیں ،منفرد ہوتے ہیں اور بدلتے نہیں ہیں۔ اس لئے خدانے کہا ہے کہ جو کچھ انسان مرنے کے قبل اپنے اعمال کو یکجا کرتا ہے وہ سب کے سب ریکارڈ کیے جاتے ہیں ۔ قرآنی آیات کی تفسیر میں یہ بات آتی ہے کہ انسان کے اعمال ان کے قدموں کے نشانات کے ذریعہ بھی یکجا ہوتے ہیں ،ریکارڈ ہوتے ہیں۔قدموں کے عکس کے بارے میں گزشتہ دنوں کافی اطلاعات شائع ہوئی ہیں جو قاری کی نگاہ سے گزری ہوں گی۔ملک اور بیرون ملک کے مختلف روزناموں اور جریدوں میں اس کی اطلاع شائع ہوئی ہے ۔سائنسی تحقیق کے مطابق ’’ چونکہ پسینوں کے غدود کی نالیاں برادمہ( Epidermis) کی ابھاروں کی چوٹیوں پر کھلتی ہیں اس لئے جب کسی ہموار چیزوں کو چھوا جاتا ہے تو اسی پر انگلیوں یا پائوں کے نشانات ثبت ہوجاتے ہیں مگر اب تو یہاں تک ثابت کیا جارہا ہے کہ انگلیوں،پائوں ،جسموں کی لہروں کے ذریعہ نشانات ثبت یا عکس درج ہوجاتے ہیں۔میڈیکل ویب سائٹ MED کی رپورٹ کے مطابق جاپان کی ’’ شن شو یونیورسٹی‘‘ کے ڈاکٹر جناب ’ تادپاتا سکی‘ جو اس طرح کی تحقیق کے اہم فرد ہیں ،فرماتے ہیں کہ ’’ پائوں ہمارے جسم کا ایسا واحد حصہ ہیں جو چلنے کے دوران اپنے ماحول سے براہ راست رابطے میں آتے ہیں۔چنانچہ معجزاتی طور پر پائوں اپنی مخصوص چال کے نشان زمین پر منتقل کرتے ہیں ۔شاید اسی وجہ سے ہم اپنے جاننے والوں کو ان کی چال کی بنا پر دور سے ہی پہچان لیتے ہیں۔چاہے وہ دور سے صاف طور پر دکھائی بھی نہیں دے رہے ہوں ۔ ماہرین نے اپنے تجربات کے دوران 104 انسانوں کو ’فٹ میٹ طرز کے ایسے پلیٹ فارم پر سے گزرنے کو کہا جس میں ہزار وں سینسر نصب کیے گئے تھے۔انہوں نے ہر انسان کے دس قدموں کا ڈیٹا ریکارڈ کرکے اس کا تجزیہ کیا جس سے پتہ چلا کہ ہر شخص کے قدموں کا الیکٹرانک گراف دوسرے شخص سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ڈاکٹر پاتا سکی نے اپنے ریسرچ میں کہا ہے کہ 104 افراد کے ایک ہزار چالیس قدموں کے نشانات سے جو نتائج حاصل ہوئے ہیں ان میں صرف 3 غلطیاں تھیں جسے سُدھارا جاسکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ دو مختلف افراد کے پائوں کے نمبر، جسمانی ساخت اور وزن چاہے ایک جیسا ہی کیوں نہ ہو مگر ان کے پائوں زمین پر ایک دوسرے سے بالکل مختلف انداز میں دبائو ڈالتے ہیں۔ اب تک کے تجربات میں ماہرین نے ننگے پائوں چال کا الیکٹرانک گراف حاصل کیا ہے لیکن ٹیلی گراف میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بر طانیہ کی ’لیور پول یونیورسٹی ‘ کے الیکٹریکل انجینئرنگ کے سائنسداں ڈاکٹر جان گولر ماس کہتے ہیں کہ انہیں توقع ہے کہ جلد ہی ایک ایسا سافٹ ویر تیار کر لیا جائے گا جس سے جوتے اتارنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی،کیونکہ جوتے کا سول اور اس کا ڈیزائن چاہے ایک جیسا ہی کیوں نہ ہو، زمین پر اس کے دبائو کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کس کے پائوں میں ہے۔ان سائنسدانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ہر انسان زمین پر ایک مخصوص انداز میں اپنا قدم رکھتا ہے جس کی وجہ سے مختلف پائوں زمین پر الگ الگ انداز میں الگ الگ دبائو ڈال کر بالکل ایک دوسرے سے منفرد نتائج پیدا کرتے ہیں۔انسان کے پائوں میں (تلوے میں)ایک لاکھ سے زیادہ ایسے مختلف حصے ہیں جن کی وجہ سے زمین پر پائوں ڈالنے کا دبائو الگ الگ ڈھنگ سے اور طریقہ سے پڑتا ہے اور ان کی نشانی محفوظ ہوجاتی ہیں جنہیں دوبارہ ریکارڈ کے ذریعہ دیکھا جاسکتا ہے اور اس آدمی کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے جدید سائنسی دور میں چال اور قدموں کے نشانات کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے اور کسی بھی فرد واحد کے قدموں کے نشان کے ریکارڈ سے جسمانی طور پر انسانی کو روکے بغیر اور انہیں چیک کئے بنا اس کی شناخت ہوسکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پرانے زمانے میں کھوجی یا تفتیش کنندہ مجرموں کی تلاش میں انسانوں اور جانوروں کے پائوں کے نشانات سے کام لیتے تھے اور مجرموں کے راہ گذر کا پتہ لگا لیتے تھے۔ کھوجی یا جاسوس اتنے ماہر ہوتے تھے کہ وہ جانوروں کے کھروں کے نشان دیکھ کر ان کے بارے میں غیر معمولی حد تک درست اندازہ لگالیا کرتے تھے۔مثلاً یہ کہ گھوڑے ، ہرن یا کسی دوسرے جانور کی جسامت کیسی ہے ،وزن کتنا ہے،اس کے چلنے کا قدرتی انداز کیا ہے اور یہ کہ اس پر سوار شخص اسے کس انداز میں چلانے کی یا دوڑانے کی کوشش کررہا تھامگر یہ نشانات تو زمین پر بظاہر نظر آجاتے تھے اب سائنس نے تحقیق کرکے یہ بتادیا ہے کہ انسان کی جسمانی لہریں فضا میں ثبت ہوکر اپنا ثبوت عکس کر دیتی ہیں جنہیں ریکارڈ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اس وقت حساس مقامات پر مشکوک افراد کی نگرانی کے لئے ویڈیو کیمرے وغیرہ لگا کر مجرموں کا پتہ لگا یا جاتا ہے۔ ’ڈاکٹر گرلرماس‘ کا کہنا ہے کہ اگر ایسے حساس مقامات کے راستوں یا گزرگاہوں پر پریشر پوائنٹ ریکارڈ کرنے والے فٹ میٹ بچھادیے جائیں تو وہاں سے گزرنے والے ہر شخص کی شناخت کمپیوٹر اپنے ڈیٹا ریکارڈ کرکے اطلاع بہم پہنچا دے گا اور اس طرح مجرم کی اپنی ذاتی اطلاع کے بغیر یا ان کو بھنک لگے بغیر انہیں گرفت میں لیا جاسکتا ہے یعنی انسان جہاں کہیں بھی جاتا ہے ، اٹھتا بیٹھتا ہے ،چلتا پھرتا ہے۔ ان تمام جگہوں پر اپنے پائوں کے نشانات کے ذریعہ اپنے حق میں یا اپنی مخالفت میں ثبوت پیدا کرتا جاتا ہے ۔ یہ تمام ثبوت زمین پر اور فضائوں میں ثبت ہوجاتے ہیں لہٰذا قرآنی تشریح کے مطابق انسان جو کچھ عمل آگے بھیجتا ہے یا جو کچھ عمل وہ پیچھے چھوڑتا ہے وہ ب کے سب ایک محفوظ کتاب میں درج کر لئے جاتے ہیں ۔اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ بندہ جو کچھ بولتا ہے ،عمل کرتا ہے یا جہاں جہاں اپنے قدموں سے چل کر جاتا ہے وہ سب کے سب ریکارڈ ہورہے ہیں اور یہ تمام ثبوت انسان کے حق میں یا ان کے خلاف ریکارڈ کی شکل میں بروز حشر پیش کیے جائیں گے۔
سائنس نے اس بات کی توثیق کردی ہے کہ (الف) انگوٹھوں کے نشانات ایک مکمل ثبوت کی حیثیت رکھتے ہیں (ب)قدموں کے نشان بالکل نا قابل تنسیخ ثبوت ہیں (ج) انسان کے تمام حرکات و سکنات کی ریکارڈنگ ہورہی ہے (د) زمین اور فضا میں تمام ثبوت ریکارڈ کیے جارہے ہیں۔ اللہ نے اپنی کتاب میں فرمادیا ہے کہ ہر ایک ذی روح کے لئے نگراں اور محافظ مقرر ہے جو ان کی کارکردگی کا لیکھا جوکھا تیار کرتا رہتا ہے۔ زمین انہیں ریکارڈ کو اپنی زبان سے خدا کے حضور بیان کرے گی ،جیسا کہ سورہ زلزال میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ سورہ طارق میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کی تشریح کے مطابق انسان کا ایک ایک لمحہ ریکارڈ ہورہا ہے۔ہم نے مکمل ایمان کی وجہ سے اندیکھے خدا کے غیب کی تمام باتوں پر یقین کیا ہے۔یہی ایمانی تقاضہ ہے ۔وہ جو ان سب باتوں پر یقین نہیں رکھتے ہیں ۔ان کے سامنے سائنسی تحقیق ببانگ دہل اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ قرآن کریم اللہ اور صرف اللہ کی کتاب ہے جو درست اور سچ ہے ۔ g
No comments:
Post a Comment