Saturday, 28 March 2015

damchi ki haddi se qayamat main dubara insan ki paidaish

دمچی کی ہڈی سے قیامت میں دوبارہ انسان کی پیدائش ہوگی

وصی احمد نعمانی 
بخاری شریف میں مذکور حدیث کی بنیاد پر یہ بات ثابت ہے کہ قیامت کے روز اللہ کے حکم سے مخصوص بارش کے پانی سے مرے ہوئے تمام انسان زندہ ہوکر اللہ کے دربار میں حساب و کتاب کے لئے حاضر کیے جائیں گے اور ایسا اسی وقت ہو جائے گا جب مخصوص بارش کا پانی انسان کی دمچی کی ہڈی سے مل جائے گا۔ حدیث کے مطابق انسان کی پیدائش سے لے کر موت کے بعد قیامت تک یہ اپنی اصلی حالت میں رہتی ہے۔ کبھی بھی سوکھتی، گلتی ، سڑتی اور جلتی نہیں ہے۔ سائنس کی جدید ترین تحقیق نے بھی اس بات کو ثابت کردیا ہے۔
دمچی کی ہڈی میں ماں کے وہ تمام خلیے موجود ہوتے ہیں جو ایک انسانی یافتوں یا ان کی تشکیل اور نشو ونما کے لئے ضروری ہے۔ ’’ جنین کی پیدائش اور مکمل بناوٹ کے بعد ابتدائی لکیریں جو جنین کی بنیاد ہیں وہ اور ’’ابھار‘ پیڑو‘‘ کے پیچھے کی تکونی ہڈی یعنی مقعد کی ہڈی (دمچی کی ہڈی) میں ٹھہر جاتے ہیں اور اپنی تمام خصوصیات کو ہمیشہ برقرار رکھتے ہیں۔ انسان کے مرجانے کے بعد بھی اگر یہ زندگی میں دوبارہ متحرک ہوجائیں تو ایک دوسرے جنین کی طرح بڑھنا شروع ہوجائیں گے اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس دمچی کی جگہ ایک گومڑا یا بڑا سا ابھار یا گلٹی بننا شروع ہوجائے گی جو ایک بے شکل جنین کی طرح ظاہر ہوگی جس سے جنین کے کچھ اعضاء جیسے ہاتھ ، پائوں کا ناخنوں سمیت بڑھنا وغیرہ واضح ہوگا۔ اس لئے یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ دمچی کی ہڈی میں ماں کے وہ تمام خلیے موجود ہوتے ہیں جن سے کہ ایک نئے انسان کی پیدائش ممکن ہے۔ اس کا لب و لباب یہ ہے کہ دمچی کی ہڈی ان ابتدائی لکیروں اور ابھاروں پر مشتمل ہوتی ہے جن سے تین اہم حصوں کی تشکیل ہوتی ہے (1 ) Ectoderm (2 )Mesoderm (3 )Endoderm ۔انہیں تین بنیادوں سے جنین کی بناوٹ اور شکل مکمل ہوتی ہی ہے۔Ectoderm جلد کی بیرونی تہہ کو کہتے ہیں۔ اس سے جنین کے مرکزی اعصابی نظام تشکیل پاتے ہیں۔ Mesoderm جنین کی درمیانی بافتی تہہ کو کہتے ہیں۔ اس سے نظام ہضم کے پٹھے، انسانی پنجر یا ڈھانچے کے پٹھے، نظام دوران خون، دل، جنسی اور پیشاب کے نظام (مثانوں کے علاوہ)زیر جلد پائی جانے والی بافتیں اور پھر بافتوں میں پائے جانے والے بے رنگ مائع کا نظام یا Lymphatic system، تلی (Spleen)اور دماغ کا بیرونی حصہ Cortex تشکیل پاتا ہے۔ یہ سب دمچی کی ہڈی کی خصوصیت کی بنا پر ہوتا ہے۔ Endoderm جنین کی اندرونی تہہ کو کہتے ہیں۔ اس حصہ میں نظام ہضم کے متعلقہ اعضاء ( جگر ، لبلبہ وغیرہ) نظام تنفس ، مثانہ ، غدہ ورقیہ یا Thyroid gland اور کان کی نالی یا Hearingcanal پر استری کاری (Linings) ہوتی ہے۔
انسانی جسم ایک سو کھرب خلیوں کا مرکب ہے اور اس کے جسم کی ہڈیاں بھی خلیوں کی مرکب ہیں۔یہی نہیں بلکہ ہڈیوں کی ترکیب میں شامل خلیوں میں وہ تمام اجزاء موجود ہوتے ہیں جو عام ذی روح مخلوقات میں پائے جاتے ہیں ۔جب انسان اس بات پر غور کرتا ہے کہ انسانی دمچی کی ہڈی جو اس کے مرجانے کے بعد بھی نہ تو سڑتی ہے نہ گلتی ہے اور نہ جلتی ہے تو یقینا وہ روزمحشر تک عالم برزخ میں پڑی رہے گی اور اس کے اندر موجود خلیوں میں بھی بلا شبہ اصل حیات باقی رہے گی اور اسی سے روز محشر اللہ کی قدرت کاملہ سے کل کائنات کی تخلیق ہوگی ۔ انسان کو عدم سے وجود میں پھر لایا جائے گا ۔
دمچی سے جنین کے مذکورہ بالا مراحل مکمل ہوتے ہیں۔ابتدائی لکیر اور ابھار سوکھ جاتے ہیں اور ریڑھ کی ہڈی کی جگہ ٹھہر جاتے ہیں، چنانچہ اسی سے دمچی کی ہڈی کی تشکیل ہوتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں جنین میں پیدا ہونے والی ابتدائی لکیریں (Primetive Streaks) اور ابھارہی دمچی کی ہڈی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یعنی جب انسانی نطفہ ماں کے بیضہ کو بار آور کرتاہے تو زائیگوٹ کے ملنے سے جنین کی پیدائش کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ زائیگوٹ حمل کے استقرار کے بعددو خلیوں،چار خلیوں میں بڑھ کر اس کی تقسیم اور ضرب جاری ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ جنین ایک ’’ڈسک‘‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اس ڈسک کی دو تہیں ہوتی ہیں ۔ ایک بیرونی اور دوسری اندرونی تہہ۔ بیرونی تہہ کو Epiblast کہتے ہیں۔ یہ تہہ جنین کو ماں کے رحم کی دیوار کے ساتھ جما دیتی ہے اور رحم کی دیوار کے غدودوں سے خارج ہونے والے مواد اور خون سے اس کی (جنین ) خوراک کا بندوبست کرتی ہے۔ اندرونی تہہ کو Hypoblast کہتے ہیں۔ اللہ جنین کے جسم کی ابتدا اسی تہہ سے کرتا ہے اور تقریباً پندرہ دنوں کے بعد جنین کی پشت یعنی پیٹھ پر ابتدائی لکیریں بننا شروع ہوجاتی ہیں۔ جن کے سرے نوک دار ہوتے ہیں۔ اسی کو ابتدائی ابھار یا گلٹی کہا جاتا ہے۔یا دوسرے لفظوں میں Primitivnode کہتے ہیں۔ ان ابتدائی لکیروں اور ابھاروں سے ہی جنین میں مختلف ریشے، بافتیں اور اعضاء بنتے ہیں ،جس کی تفصیل مندرجہ بالا سطور میں پیش کی گئی ہے۔ اس طرح تخلیق شدہ دُمچی کی ہڈی کسی بھی حالت میں نہ گلتی ہے نہ سڑتی ہے اور نہ جلتی ہے بلکہ ثابت اور مکمل رہتی ہے۔ اس ریسرچ کے نتیجہ میں ہی جرمنی سائنس داں جناب Hans Spemann کو 1935 میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ جنہوں نے ثابت کیا تھا کہ دمچی کی ہڈی انسانی جسمانی ساخت کے لئے ستون ہے اور اسی ستون کی بنیاد پر انسانی بدن کی تشکیل اور تخلیق ہوتی ہے ۔ اس کے کافی دنوں کے بعد یعنی 2001 میں رمضان المبارک کے ماہ میں (1423ھ ) اسی طرح کا ایک تجربہ جناب ڈاکٹر عثمان الجیلانی اور شیخ عبد الماجد الزندانی نے یمن کے شہر صنعاء میں کیا۔ جناب شیخ الزندانی نے اپنے گھر میں ایک دمچی کی پانچ ہڈیوں کو گیس گن کے ذریعہ پتھر کے اوپر رکھ کر 10 منٹ تک اس قدر جلایا کہ وہ آگ کا انگارہ بن گئیں اور جب ٹھنڈی ہوئیں تو بالکل سیاہ ہوچکی تھیں۔ ڈاکٹر الزندانی نے ان جل کر کوئلہ بن جانے والی ہڈیوں کو ایک جراثیم سے پاک صندوق کے اندر محفوظ کیا اور صنعاء شہر کی سب سے بہترین لیباریٹری (Al Olakai Labratory) میں تجزیہ کے لئے بھیج دیا تاکہ پتہ چل سکے کہ گیس گن سے 10 منٹ تک گرم کرنے کے بعد بھی اس پر کیا اثر پڑا یعنی دمچی کی ہڈی جلی یا نہیں۔جناب ڈاکٹر Al olakhai صنعاء یونیورسٹی میں نسچون اور بافتوں کے خردبین مطالعہ یعنی Histology اور علم تشخیص امراض (Pathology) کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے ان ٹکڑوں کا تجزیہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اس قدر جلنے کے بعد بھی دمچی کی ہڈی کی بافتوں کے خلیوں پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے اور وہ سب کے سب سلامت ہیں۔ صرف چربیلی بافتوں والے پٹھے اور ہڈیوں کا گودا متاثر ہوا ہے۔یعنی یہ بات بالکل ثابت ہوئی کہ دمچی کی ہڈی اتنی دیر تک گیس گن سے جلانے کے بعد بھی بالکل جلی نہیں اور زندہ و سلامت رہی۔ یعنی اس دمچی میں یہ صلاحیت باقی رہی کہ سازگار حالات میں وہ انسانی شکل میں پیدا ہوکر یہ ثبوت فراہم کرے کہ دمچی کی ہڈی نہ گلتی ہے نہ سڑتی ہے اور نہ ختم ہوتی ہے۔
انسانی جسم ایک سو کھرب خلیوں کا مرکب ہے اور اس کے جسم کی ہڈیاں بھی خلیوں کی مرکب ہیں۔یہی نہیں بلکہ ہڈیوں کی ترکیب میں شامل خلیوں میں وہ تمام اجزاء موجود ہوتے ہیں جو عام ذی روح مخلوقات میں پائے جاتے ہیں ۔جب انسان اس بات پر غور کرتا ہے کہ انسانی دمچی کی ہڈی جو اس کے مرجانے کے بعد بھی نہ تو سڑتی ہے نہ گلتی ہے اور نہ جلتی ہے تو یقینا وہ روزمحشر تک عالم برزخ میں پڑی رہے گی اور اس کے اندر موجود خلیوں میں بھی بلا شبہ اصل حیات باقی رہے گی اور اسی سے روز محشر اللہ کی قدرت کاملہ سے کل کائنات کی تخلیق ہوگی ۔ انسان کو عدم سے وجود میں پھر لایا جائے گا ۔ اللہ نے فرمایا ہے ’’ تو کہہ اللہ پہلے پیدا کرتا ہے (پھر وہی اللہ) اس کو دہرا ئے گا ، سو کہاں پلٹے جارہے ہو(سورہ یونس )دوسری جگہ ارشاد ہے ’’ جس طرح ہم نے (اللہ نے) پہلے تخلیق کی ابتدا کی تھی ۔ اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے یعنی پہلے کی طرح ہی دہرا کر بنائیںگے ۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذ مہ اور یہ کام ہمیں بہر حال کرناہے (سورہ الانبیائ)اس طرح قرآنی آیات احادیث کے فرمان کے مطابق ہی سائنس نے ریسرچ اور تحقیق کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ دمچی کی ہڈی سے انسان کی دوبارہ پیدائش ممکن ہے کیونکہ دمچی کی ہڈی کبھی بھی ناکارہ نہیں ہوتی ہے۔

No comments:

Post a Comment